اردو رباعیات

بلال حیدر

محفلین
اِس گُلخنِ آفات سے جل کر نکلے
آخر کفِ افسوس ہی مل کر نکلے
شورِ ہستی سے جانبِ منزلِ خاک
رہرو ، نئی پوشاک بدل کر نکلے

سید نصیر الدین نصیر
 

بلال حیدر

محفلین
اِس گُلخنِ آفات سے جل کر نکلے
آخر کفِ افسوس ہی مل کر نکلے
شورِ ہستی سے جانبِ منزلِ خاک
رہرو ، نئی پوشاک بدل کر نکلے

سید نصیر الدین نصیر
 

کاشفی

محفلین
جو بحرِ فنا کی سطح پر بہتے ہیں
کب راز کسی سے اپنا وہ کہتے ہیں
اس بحر میں جو ڈوب گئے ہیں، اے شاد
وہ "وحدہ لاشریک لہ"رہتے ہیں

(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
 

کاشفی

محفلین
ہو عرشِ بریں پر کہ زمیں پر ہو خُدا
ملتا ہے اسے جس نے کہ دل سے ڈھونڈا
جس دم کہ ہوا ذات سے اسکی واصل
منصور کی مانند وہ کہتا ہے اَنا

(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
 

کاشفی

محفلین
دُنیا سے گئے جتنے بھی اگلے پچھلے
پلٹے نہ عدم سے اور کسی سے نہ ملے
وہ ایک ہی گردش میں ہے پرکار کی طرح
آخر بھی وہی ہے جو ہے سب سے پہلے

(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
 

کاشفی

محفلین
کب غیر پہ تو شاد نظر رکھتا ہے
دیکھا تجھے عرفان میں تو پکا ہے
یہ عارفِ کامل نے تجھے دی تعلیم
ہے حق کے سوا جو کچھ وہ اک دھوکا ہے

(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
 
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی


(مولانا ابوالکلام آزاد)
واہ۔
اب اس کے لئے سرمد حاضر ہے۔
سرمد در دین عجب شکستے کردی
ایمان بہ فدائے چشمِ مستے کردی
عمرِ کہ بہ آیات و احادیث گزشت
رفتی و نثارِ بت پرستے کردی
 
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اُسے سُخنورانِ کامل

آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل و گر نگویم مشکل
غالب
 
ﺭﺑﺎﻋﯽ
ﭘﺴﺘﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﺎ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺍﺑﮭﺮﻧﺎ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﻣﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺪ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺟﺰﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﻮ اترنا دیکھے
 

کاشفی

محفلین
جو اچھے ہیں رکھتے ہیں سبھی منہ پہ نقاب
آنکھوں میں ہر اک بشر کی ہوتا ہے حجاب

اے خانہ خراب لیکن انصاف تو کر
اتنا بھی کوئی کسی کو کرتا ہے خراب

(مصحفی)
 
کبھی تنہائیٔ کوہ و دمَن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکَن عشق


(اقبال)
کبھی آوارہ و بے خانماں عشق

کبھی شاہ شہاں نوشیرواں عشق

کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش

کبھی عریان و بے تیغ و سناں عشق!
 

عماراحمد

محفلین
خاکسار کی رباعی

راہی بھی یہاں راہ کو اب بھول گئے
مقصد جو ہے اپنا وہ تو سب بھول گئے

اس بات پہ لاحول ہی پڑ سکتے ہیں
انسان تو اب موج میں رب بھول گئے

عماراحمد
 

فاخر رضا

محفلین
اک ننھا سا ذاکر سر منبر آیا
گردوں سے چمکتا ہوا اختر آیا
کہتے ہیں سبھی مل کہ یہ بچے باہم
مداح جناب علی اصغر آیا
 
Top