اردو رباعیات

کاشفی

محفلین
شکریہ وارث صاحب!

انسان چاہے جو بات اچھی چاہے
بدیوں سے محترز ہونے کی چاہے

شیطان سے وہ فلسفی ہے منسوب
جس کا مطلب ہے کہ وہ جو جی چاہے
(سید اکبر حسین الہ آبادی)
 

کاشفی

محفلین
اونچانیت کا اپنی زینہ رکھنا
احباب سے صاف اپنا سینہ رکھنا

غصہ آنا تو نیچرل ہے اکبر
لیکن ہے شدید عیب، کینہ رکھنا
(سید اکبر حسین الہ آبادی)
 

کاشفی

محفلین
کانٹا ہر اک جگر میں اٹکا تیرا
حلقہ ہر اک گوش میں لٹکا تیرا

مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا نہیں ضرور
بھٹکے ہوئے دل میں ہے کھٹکا تیرا
(مولانا الطاف حسین حالی)
 

کاشفی

محفلین
مانا کاوش تھی کاوشِ غم تو نہ تھی
گریہ تھا، مگر نوائے ماتم تو نہ تھی

بچپن میں جو بات تھی جوانی میں کہاں
خندہ بھی تھا، یہ فغانِ پیہم تو نہ تھی
(رواں)
 

کاشفی

محفلین
اس دارِ فنا میں مقصدِ دل کیا ہے
منشائے نُمودِ حق و باطل کیا ہے

جب قلب کو ایک دم بھی راحت نہ ملی
آخر اس زندگی کا حاصل کیا ہے
(رواں)
 

کاشفی

محفلین
ہے اتنی غرض دہر کے افسانے کی
جو کچھ کر، صاف کر، بدی یا نیکی

ہوشیار کہ زندگی دو روزہ ہے رواں
نکلی ہوئی جاں پھر نہیں آنے کی
(رواں)
 

کاشفی

محفلین
ہے آپ کی تسبیح و مناجات کی رات
اور میری معاصیءِ خرابات کی رات

پر، رات سوئے میکدہ تھے شیخ رواں
اچھی تو کٹی قبلہء حاجات کی رات؟
(سعید احمد اعجاز)
 

کاشفی

محفلین
لائی ہے تمہیں گھیر کے برسات کی رات
مہمان ہو تم میرے یہی رات کی رات

کھل جاؤ مری جان خدارا مجھ سے
ہر روز کہاں آتی ہے برسات کی رات
(سعید احمد اعجاز)
 

کاشفی

محفلین
راحت کا ہر اک جان کی ساماں بن جا
ہو درد جہاں تو وہیں درماں بن جا

اتنی تو مری مان ہی لے اے اخگر
صورت میں ہے سیرت میں بھی انساں بن جا
(اخگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
دکھ درد میں اوروں کا جو غمخوار نہ ہو
بے یارومددگار کا جو یار نہ ہو

جنت تو ملے اس کو مگر اے اخگر
جنت میں خدا کا اسے دیدار نہ ہو
(اخگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
موقع ہے یہ کچھ نیک کمائی کر لے
اچھا ہے بروں سے بھی بھلائی کر لے

اخگر کرمِ عام خدا کی ہے صفت
اس بندگی میں کچھ تو خدائی کر لے
(اخگر مراد آبادی)
 

کاشفی

محفلین
غافل یہ نشاطِ زندگانی کب تک
ہنگامہء کیفِ نوجوانی کب تک

اس شورشِ بیجا کی کوئی حد بھی ہے
آخر کب تک یہ لن ترانی کب تک
(عرش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
نیرنگی قدرت کے تماشے دیکھے
کیا کیا تری صنعت کے تماشے دیکھے

اک شکل کی لاکھوں میں نہیں دو شکلیں
کثرت میں بھی وحدت کے تماشے دیکھے
(عرش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
پابندیء جان و دل ہے تدبیرِ حیات
اللہ اللہ ری فکر توقیرِ حیات

آغاز کی کچھ خبر نہ انجام کا علم
کونین ہے پھر بھی محوِ تدبیرِ حیات
(رواں)
 

کاشفی

محفلین
کیا افسرِ جمشید ہے کیا دولت کَے
بیکار ہے زرفشانیء حاتم طَے

میں بادہ گسار ہوں مجھے کافی ہے
یا ساغر ماہتاب یا ساغر مَے
(عابد لاہوری)
 

کاشفی

محفلین
ایسا نہ ہو عشق دل کو رنجور کرے
برباد مجھے شعلہء مستور کرے!

دے جام شرابِ آتشیں اے ساقی
ممکن ہے کہ زہر زہر کو دور کرے!
(شاعر: مجھے معلوم نہیں)
 

کاشفی

محفلین
روتا ہوں میں دوستو! مجھے رونے دو
دامن پہ ہے داغِ معصیت دھونے دو

اب نزع کی حالت میں وصیّت کیسی
جاؤ بھی، ہٹو، غُل نہ کرو، سونے دو
(شاعر: مجھے معلوم نہیں)
 

کاشفی

محفلین
کیا پایا اگر کوئے صنم میں بیٹھے
کیا مل گیا جا کر جو حرم میں بیٹھے

دل مطمئن اس وقت ہوا اے محشر
جس وقت کہ آخرت کے غم میں بیٹھے
(محشر لکھنوی)
 
Top