داغ اب دل ہے مقام بے کسی کا - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی)

اب دل ہے مقام بے کسی کا
یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا

کس کس کو مزا ہے عاشقی کا
تم نام تو لُو بھلا کسی کا

پھر دیکھتے عیش آدمی کا
بنتا جو فلک مری خوشی کا

گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوس لیا کلی کلی کا

لیتے نہیں بزم میں مرا نام
کہتے ہیں خیال ہے کسی کا

جیتے ہیں کسی کی آس پر ہم
احسان ہے ایسی زندگی کا

بنتی ہے بُری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں بُرا ہو عاشقی کا

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
مُنہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا

اتنی ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا

ہم بزم میں اُن کی چپکے بیٹھے
مُنہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارا سودا ہے جیتے جی کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا

روکیں اُنہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا

ایسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اُسی کا
 
Top