آپ کے ہاں سائلین کس طرح فریاد کرتے ہیں؟؟؟

سید عمران

محفلین
ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔

ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔

چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔

برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔

چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔

جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔

تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔

سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔ :) :) :)
برگر والے نے اپنا بزنس ٹھپ کر لیا۔۔۔ اب روز کی مفت دیہاڑی گئی۔۔۔ فقیر کا کیا ہے۔ کسی اور برگر والے سے بھاؤ تاؤ کر لے گا۔
یونانی حکمت والے کسی حکیم کو اور ہومیو یتھک میڈیسن والے ہومیو ڈاکٹرکو اپنی دوکانوں پر بٹھاتے ہیں جو نسخے پر ان کی دوائیں تجویز کرکرکے سیل بڑھاتا ہے۔ اسی طرح فارماسوٹیکل والے بھی ڈاکٹروں سے ساز باز کرکے نسخے پر اپنی دوائیں لکھنے کو کہتے ہیں۔۔۔
بے چارے فقیر نے یہ انٹرنیشنل آزمودہ و مجرب نیز تیر بہدف فارمولا آزمایا تو کیا برا کیا۔۔۔
نقصان تو برگر والے کا ہوا جو فارمولا ناشناس نکلا۔ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارلی۔۔۔
اسی لیے کہتے ہیں زمانہ کی رفتار کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ گریڈ کرنا چاہئے جو جاہل برگر والا نہ کرسکا۔
نتیجۃً نوکیا فون کی طرح اپنا بزنس ٹھپ کربیٹھا۔۔۔
ناہنجار کہیں کا!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
غیب کا علم اللہ کے پاس ہے اس لیے یہ تو نہ کہوں گا کہ جس سائل کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں، وہ حقیقت میں مستحق ہے یا نہیں۔ ایک سائل نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ وہ ہر ایک دو ماہ بعد دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ایک خط گھر میں اس کے حوالے کر دیتا ہے جو کہ دروازہ کھولے۔ یوں اس لیٹر کی انٹری گھر تک ہو جاتی ہے اور یہی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بینک وغیرہ سے آیا ہے یا کوئی آفیشل لیٹر ہے۔ اس لیٹر کو کھولا جائے تو اس میں ایک تحریری فریاد ہوتی ہے کہ میری مدد کی جائے، میرا تعلق کسی فلاحی ادارے سے ہے۔ اس کے بعد، ایک آدھ منٹ کے بعد ڈور بیل بجتی ہے اور لیٹر واپس طلب کر لیا جاتا ہے۔ کئی بار اس کی امداد کی جا چکی ہے مگر اب جی چاہتا ہے کہ ہاتھ کھینچ لیا جائے کیونکہ مجھے پیسے طلب کرنے کا یہ طریقہ عجیب سا لگتا ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس طرح کے نوے فیصد لوگ جعلی ہوتے ہیں۔

سب سے اچھی خیرات وہ ہوتی ہے جب ہم خود ضرورتمند تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جو سائل ہم تک رسائی حاصل کرتا ہے اُس کی دیانت داری میں شبہ ہی رہتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسی لیے کہتے ہیں زمانہ کی رفتار کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ گریڈ کرنا چاہئے جو جاہل برگر والا نہ کرسکا۔
نتیجۃً نوکیا فون کی طرح اپنا بزنس ٹھپ کربیٹھا۔۔۔
ناہنجار کہیں کا!!!

:) :) :)

ہاہاہاہا

کیا بات ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
برگر والے نے اپنا بزنس ٹھپ کر لیا۔۔۔ اب روز کی مفت دیہاڑی گئی۔۔۔ فقیر کا کیا ہے۔ کسی اور برگر والے سے بھاؤ تاؤ کر لے گا۔

نقصان تو برگر والے کا ہوا جو فارمولا ناشناس نکلا۔ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارلی۔۔۔
اسی لیے کہتے ہیں زمانہ کی رفتار کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ گریڈ کرنا چاہئے جو جاہل برگر والا نہ کرسکا۔
نتیجۃً نوکیا فون کی طرح اپنا بزنس ٹھپ کربیٹھا۔۔۔
ناہنجار کہیں کا!!!

اگروہ برگر والا آپ دونوں کی رائے پڑھ لے تو اپنا سر پیٹ لے۔ :) :) :)
 

زوجہ اظہر

محفلین
والدہ کو لے کر آغا خان ہسپتال گئی
پہلے کچھ ٹسٹ کرانے کے لئےریڈ یالوجی ڈیپارٹمنٹ گئے
انتظار گاہ میں بیٹھنے کے دوران ایک خاتون آئیں اور کچھ نسخے دکھاتے ہوئے گویا ہوئیں کہ یہ والد کے لئےٹسٹ اور دوائیں ڈاکٹر نے لکھ کردی ہیں ،کچھ مدد کردیں۔
کاغذات کی سرسری جانچ پڑتال کرنے پر درست لگے جو کہ آغا خان کے ہی تھے
لیکن ان کو کہا کہ آپ کہاں اتنے مہنگے ہسپتال میں آرہی ہیں پھر ان کو گردوں کے ہسپتال کا بتایا جو تقریبا فری علاج کرتے ہیں اور پانچ سو روپے دے دیئے
وہ محترمہ اور دوسرے لوگوں کی طرف بڑھ گئیں
اب ٹسٹ کروا کر امی کو لیکر چیک اپ کے لئےاونکالوجی ڈیپارٹمنٹ گئی
وہاں انتظارگاہ میں بیٹھے ہوئے ،امی نے ٹہوکا دیا کہ دیکھو وہی لوگ یہاں بھی موجود ہیں
کیا دیکھتی ہوں یہاں بھی وہی سلسلہ ۔۔
فورا استقبالیے پر گئی اور شکایت کی کہ یہ ہسپتال میں بھیک مانگ رہے ہیں ، وہاں موجود محترمہ گارڈز کو بلانے کے لئے فون کرنے لگیں
اسی اثنا میں ان خاتون نے شاید دیکھ لیااور رفو چکر ہونے کے لئے لفٹ کے پاس پہنچ گئے
اب میں ریسیپشنسٹ سے کہتی رہ گئی کہ دیکھیں وہ بھاگ رہے ہیں ،بہرحال گارڈ جب تک آئے وہاں سے تو نکل گئے اورپوچھنے پران کو حلیے بتا دیئے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
والدہ کو لے کر آغا خان ہسپتال گئی
پہلے کچھ ٹسٹ کرانے کے لئےریڈ یالوجی ڈیپارٹمنٹ گئے
انتظار گاہ میں بیٹھنے کے دوران ایک خاتون آئیں اور کچھ نسخے دکھاتے ہوئے گویا ہوئیں کہ یہ والد کے لئےٹسٹ اور دوائیں ڈاکٹر نے لکھ کردی ہیں ،کچھ مدد کردیں۔
کاغذات کی سرسری جانچ پڑتال کرنے پر درست لگے جو کہ آغا خان کے ہی تھے
لیکن ان کو کہا کہ آپ کہاں اتنے مہنگے ہسپتال میں آرہی ہیں پھر ان کو گردوں کے ہسپتال کا بتایا جو تقریبا فری علاج کرتے ہیں اور پانچ سو روپے دے دیئے
وہ محترمہ اور دوسرے لوگوں کی طرف بڑھ گئیں
اب ٹسٹ کروا کر امی کو لیکر چیک اپ کے لئےاونکالوجی ڈیپارٹمنٹ گئی
وہاں انتظارگاہ میں بیٹھے ہوئے ،امی نے ٹہوکا دیا کہ دیکھو وہی لوگ یہاں بھی موجود ہیں
کیا دیکھتی ہوں یہاں بھی وہی سلسلہ ۔۔
فورا استقبالیے پر گئی اور شکایت کی کہ یہ ہسپتال میں بھیک مانگ رہے ہیں ، وہاں موجود محترمہ گارڈز کو بلانے کے لئے فون کرنے لگیں
اسی اثنا میں ان خاتون نے شاید دیکھ لیااور رفو چکر ہونے کے لئے لفٹ کے پاس پہنچ گئے
اب میں ریسیپشنسٹ سے کہتی رہ گئی کہ دیکھیں وہ بھاگ رہے ہیں ،بہرحال گارڈ جب تک آئے وہاں سے تو نکل گئے اورپوچھنے پران کو حلیے بتا دیئے ۔

عجیب لوگ ہیں۔

ایسے لوگوں کی وجہ سے اچھے خاصے نیک لوگ نیکی سے بد ظن ہو جاتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پاکستان میں رہتے ہوئے مکار بھکاریوں پر غصہ آتا ہے لیکن ملک سے باہر کسی پاکستانی کو اس حال میں دیکھیں تو یقین کریں غصے کے ساتھ ساتھ شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اب تک گداگر اللہ کے نام پہ مانگتے سنے تھے۔ دل تو تب بھی کانپتا ہے کہ نام اللہ کا اور نجانے اس نام پہ نہ دینے سے ہم گناہگار ہوں گے یا نہیں۔ پھر یہی تسلی کہ یہ حقدار نہیں، پیشہ ور ہیں سو ہم حقداروں کو دیں گے۔
لیکن پرسوں ایک ایسے گداگر سے ٹاکرہ ہوا (جو حلیہ سے بے حال ہی تھا) جو پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا صدقہ مانگ رہا تھا۔ حق ہا! ان پہ تو سب کچھ قربان لیکن وہی کہ اب کیا کریں بہرحال دیا اور حج کی دعا سمیٹی۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہمارےہاں بچےٹشوبیچتےہیں اور اُن کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ٹشو خریدنے کے بجائے ویسے ہی کچھ دے دیا جائے۔

کچھ بچے سروں پر ٹوپیاں رکھ کر مسواک یا یٰسین شریف ، وغیرہ لے کر ہاتھو ں میں گھومتے ہیں۔
ساتھ میں یہ ضرور کہتے ہیں کہ مدد کریں، سودا لے کے جانا ہے۔
نیز آواز کو دردناک بناتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پتا نہیں پہلے اس دھاگے میں لکھا ہے یا نہیں۔۔۔۔ لیکن ہمارے گھروں میں ہر جمعرات فجر سے پہلے ایک فقیر آیا کرتا تھا۔۔۔ گلی میں سے گزرتا جاتا۔ اور اپنے ہاتھ میں موجود عصا سے ہر دروازے پر دستک دیتا جاتا۔۔۔۔ وہ رکتا نہیں تھا۔ اور نہ دوبارہ دستک دیتا تھا۔۔۔۔ اس کی صدا مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔۔۔
حق حق اللہ۔۔۔ حق حق اللہ۔۔۔۔ حسین دا ابا۔۔۔ سب دا مولا۔۔۔ حق حق اللہ۔۔۔ حق حق اللہ۔۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
بوسٹن امریکہ میں شدید سردیوں میں ایک شخص پلاسٹک گلاس کا مگ رکھے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس وقت یہ انداز پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا تھا تو دکھ کے ساتھ حیرت ہوئی۔ پھر آفس آتے جاتے اسکی کچھ مدد کر دیتے۔

برلن جرمنی میں کافی بھیک مانگنے والے ہیں جو ٹرین اسٹیشن پر مانگتے ہیں۔ انہی میں ایک اسپانیش بولنے والے لڑکے سے میں نے ٹکٹ کاونٹر کا پوچھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مانگنے والا ہے۔ بس پھر کیا وہ لڑکا چیونگم ہو گیا :)۔ بہرحال میں نے اس سے کسی طرح جان چھڑائی۔

ویک اینڈ پر ایلگزینڈر پلاٹز برلن میں کئی طرح کے گانے بجانے والے جمع ہو جاتے اور لوگ انکو سکے اور بعض اوقات بئیر کی بوتل بھیک کے طور پر دیتے ہیں۔

سعودیہ میں احرام کی حالت میں دوران طواف اکثر پنجابی پاکستانی ملتے ہیں جن کی رقم گم ہو گئی ہوتی ہے یا وہ سعودی عرب کے کسی دوسرے شہر سے آئے ہوتے ہیں اور انکی رقم گم ہو گئی ہوتی ہے۔ ان کو دیکھ کر سخت کوفت ہوتی ہے۔ مکہ میں ایک محترمہ بلوچستان سے آئی ہوئیں تھیں اور بچہ انکی گود میں تھا جس کے دودھ خریدنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہیں تھیں۔ میں نے جب پوچھا کہ لاکھ روپے خرچ کر کے یہاں آ گئیں اور دودھ تک کے پیسے نہیں تو جواب نَدارَد!

قطر میں ٹیکسی ڈرائیور اپنی پریشان حالی کا تذکرہ کرتے ملے۔ ان میں سے اکثر کیرالہ انڈیا سے تھے۔ میرے سالے نے ان میں سے ایک کی مدد بھی کی کیونکہ روز کا آنا جانا تھا۔

کراچی میں تو خیر نہ پوچھیے کہ پاکستان کے کن کن علاقوں سے بھکاری آئے ہوئے ہیں۔ حال ہی آنے والے سیلاب سے سندھ سے آئے ہوئے فقیروں کی تعداد کراچی میں بڑھ گئی ہے، لیکن کافی بڑی تعداد اب بھی سرائیکی زبان بولنے والے فقیروں کی ہے۔ اکثر عورتیں ایک بچے کو گود لیے بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک نئے طرز کی بھیک بیت المکرم مسجد کے سامنے یو ٹرن پر دکھائی دی جہاں مکی ماؤس کے لباس میں ملبوس نوجوان ہاتھ کے اشارے سے ٹاٹا کر رہے تھے اور اکاَ دُکا لوگ حیرت سے نکل کر کچھ رقم بھی اس نوجوان کو دے رہے تھے۔
 

سید رافع

محفلین
کوالا لمپور، ملائیشیا میں رات کو ایک چین ریسٹورنٹ (OldTown White Coffee)میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک بزرگ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے، کاؤنٹر والے نے انہیں منع کیا لیکن وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے ایک مقامی جوڑے کے پاس جا پہنچے اور انہیں کہنے لگے کہ انہوں نے کھانا نہیں کھایا اور ان کی مدد کی جائے، جوڑے نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ ہماری طرف مڑے اور ایسی ہی کچھ بات کی۔ میں نے ان سے اردو میں بات کی کہ "بابا جی آپ پاکستان سے ہیں ؟"۔ بابا جی ، جی ٹی روڈ والی پوٹھوہاری / ہندکو میں بولے کہ انہوں نے کھانا نہیں کھایا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ایک ٹیبل کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بیٹھیں میں آپ کو کھانا کھلا دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے "nasi lemak" چاول نہیں کھانے، روٹی کھانی ہے۔ میں نے کہا چلیں پراٹھا آرڈر کر دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ بھی وہی ہیں۔ میں کہا کہ پھر میں مزید آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، کھانا ہی کھلا سکتا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا آپ پاکستانی ہو اسی لیے آپ سے کہا وغیرہ وغیرہ اور پھر ریسٹورنٹ سے یوں چلے گئے جیسے میں نے انہیں بد مزہ کر دیا ہو۔
کوالا لمپور، ملائیشیا میں رات کے کھانے کے بعد میری عادات ایک طویل ٹہل کی تھی۔ کوالا لمپور میں بارش ہونا ایک عام سی بات ہے۔ ہر دوسرے چوتھے روز بارش ہو ہی جاتی ہے۔ ایک دن ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور میں اپنے مخصوص راستے پر ٹہل کے لیے نکلا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف خاتون سڑک کے کنارے لگی بینچ پر سر کے نیچے ہاتھ دیے لیٹی ہیں۔ مجھے بہت رنج ہوا۔ اگلے روز بھی انکو اسی حالت میں دیکھا۔ تیسرے دن میں نے سوچا اگر وہ ملیں تو ضرور دو سو رنگٹ انکو دوں گا۔ وہ جیسے ہی مجھے بینچ پر لیٹی نظر آئیں، میں نے ان سے ہیلو ہائی کی اور انکے ہاتھ میں رقم تھمائی اور آگے چل پڑا۔ اب کافی سال گزر گئے ہیں تو مجھے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ خاتون بدحال تھیں لیکن کوئی لاوارث نہیں بلکہ سامنے کے ہی فلیٹوں سے اس بینچ پر آ کر لیٹ جاتی ہوں گی۔ بہرحال اس وقت یہ بات واضح نہیں ہوئی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مکہ میں ایک محترمہ بلوچستان سے آئی ہوئیں تھیں اور بچہ انکی گود میں تھا جس کے دودھ خریدنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہیں تھیں۔ میں نے جب پوچھا کہ لاکھ روپے خرچ کر کے یہاں آ گئیں اور دودھ تک کے پیسے نہیں تو جواب نَدارَد!
سوچنے کی بات ہے۔
اکثر عورتیں ایک بچے کو گود لیے بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہیں۔
جی۔ اور اکثر وہ بچہ بے ہوشی کی حد تک سویا ہوا ہوتا ہے۔
ایک نئے طرز کی بھیک بیت المکرم مسجد کے سامنے یو ٹرن پر دکھائی دی جہاں مکی ماؤس کے لباس میں ملبوس نوجوان ہاتھ کے اشارے سے ٹاٹا کر رہے تھے اور اکاَ دُکا لوگ حیرت سے نکل کر کچھ رقم بھی اس نوجوان کو دے رہے تھے۔
جی۔ اسے میں نے بھی دیکھا ہے۔

بلکہ اسی طرز کا ایک اور شخص ملینیم مال کے سامنے بھی ایک دن دیکھا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے دفتر کے نزدیک ایک بندہ اپنی معذور بیوی (غالباً ) کندھے پر اُٹھائے رکھتا ہے اور بھیک مانگتا ہے۔ اور وہ بہت دیر تک ان محترمہ کو کندھے پر اُٹھائے گھومتا رہتا ہے اور لوگ اسے بھیک بھی دیتے ہیں۔

یہ بھیک دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ معذور اس کی بیوی ہے، یہ خود نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ماشاء اللہ اتنا صحت مند ہے کہ با آسانی عورت کو اُٹھائے گھومتا رہتا ہے۔ جب اتنا ہی تندرست و توانا ہے تو پھر بیوی کو عزت سے گھر میں بٹھائے اور خود کوئی کام دھندہ کرے۔ لیکن نہیں، لوگ ان کو اس حالت میں دیکھتے ہیں اور ترس کھا کر خیرات دیتے ہیں۔ عقل اُن کی گھاس چرنے گئی ہوتی ہے۔ :)

یہ دونوں روزانہ بائیک پر تشریف لاتے ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بلکہ اسی طرز کا ایک اور شخص ملینیم مال کے سامنے بھی ایک دن دیکھا تھا۔

مجھے تو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ایک جیتا جاگتا شخص کیونکر کسی میلے میں یا کسی بچوں کے پروگرام میں بڑے بڑے ماسک لگا کر جانور بن کر گھومتا ہے۔ کیا محض بچوں کی تفریح یا تعلیم (ویسے تعلیم کا کوئی خاص پہلو مجھے اس میں نظر نہیں آتا۔ بچوں کو اصلی جانور دکھائے جا سکتے ہیں) کے لئے کوئی شخص سارا سارا دن حبس اور گھٹن میں گزارے۔ یہ بات کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہمارے دفتر کے نزدیک ایک بندہ اپنی معذور بیوی (غالباً ) کندھے پر اُٹھائے رکھتا ہے اور بھیک مانگتا ہے۔ اور وہ بہت دیر تک ان محترمہ کو کندھے پر اُٹھائے گھومتا رہتا ہے اور لوگ اسے بھیک بھی دیتے ہیں۔

یہ بھیک دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ معذور اس کی بیوی ہے، یہ خود نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ماشاء اللہ اتنا صحت مند ہے کہ با آسانی عورت کو اُٹھائے گھومتا رہتا ہے۔ جب اتنا ہی تندرست و توانا ہے تو پھر بیوی کو عزت سے گھر میں بٹھائے اور خود کوئی کام دھندہ کرے۔ لیکن نہیں، لوگ ان کو اس حالت میں دیکھتے ہیں اور ترس کھا کر خیرات دیتے ہیں۔ عقل اُن کی گھاس چرنے گئی ہوتی ہے۔ :)

یہ دونوں روزانہ بائیک پر تشریف لاتے ہیں۔ :)
ایک خاتون جو کہ مکمل برقعے میں تھیں، ہاتھ پاؤں میں دستانے جرابیں پہنی تھیں، چوک کے اس طرف موٹر سائیکل سے اتریں، میں وہاں موجود تھی۔ میں دوسری طرف کسی دکان پہ گئی تو خاتون اس دکان پہ چار یتیم بچیاں گھر پہ ہیں، ہمارا صدقے پہ حق بنتا ہے۔۔ وغیرہ۔۔ ان سے کہا کہ کام کیجیے۔ بچیوں کو بھی ہنر سکھائیے۔وہ سنتے ہی آگے چل پڑیں۔
بہاول پور میں کئی جگہ خواتین/بوڑھے مرد اچھے حلیے میں ہاتھ یا چادر پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب دو تین جگہ خواتین کو جوان بچیوں کو ساتھ لیے بیٹھے بھی دیکھا۔ ایک نے لکھ کے پکڑ رکھا ہے کہ چار بچیوں کا ساتھ ہے۔ سوال ہے کہ چار بچیوں کو گھر چھوڑ کے آئی ہو، کام کر لو۔ گھروں میں کئی کام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں زیادہ محنت نہیں ہوتی۔ تو لوگوں کے گھروں میں کام کر سکتی ہیں۔ استری کرنے کا کام کتنا آسان ہے۔ کم سے کم دو ہزار روپے ایک کام کے ہمارے علاقے میں قیمت طے ہے۔
 
Top