سیما علی

لائبریرین
  • نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
    وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

    جون ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
تپش جو شوق میں تھی وصل میں بھی ہے وہی مجھ کو
چمن میں بھی وہی اک آگ ہے جو تھی نشمین میں

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں ناصح
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں
(اصغر حُسین اصغر گونڈوی)
 

سیما علی

لائبریرین
مختصر قصہء غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

ہر نفس عمرگزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا
(شوکت علی خاں فانی)
 

سیما علی

لائبریرین
ابتدا وہ تھی کہ تھا جینا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہوگیا
(علی سکندر جگر مراد آبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
درماں کو درد، درد کو درماں بنائیے
جس طرح چاہئیے مجھے حیراں بنائیے

آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجئے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

علی سکندر جگر مراد آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
وصل کے لُطف اُٹھاؤں کیونکر
تاب اس جلوے کی لاؤں کیونکر

یاد نے جس کی بھلایا سب کچھ
اس کی میں یاد بھلاؤں کیونکر

شیفتہ
 

سیما علی

لائبریرین
ربط غیروں سے بڑھا مجھ سے وفا چاہتے ہو
دل میں سمجھو کہ یہ کیا کرتے ہو کیا چاہتے ہو

عشوہ و ناز و ادا طعن سے کہتے ہیں مجھے
“ایک دل رکھتے ہو کس کس کو دیا چاہتے ہو“
خیر الدین یاس شاگرد مومن
 

سیما علی

لائبریرین
سرکشی اہلِ تواضع سے کوئی چلتی ہے
پست دروازہ سے خود آتا ہے انساں جھک کر

مرتبہ پیشِ خدا ہوتا ہے اتنا ہی بلند
جس قدر چلتا ہے انساں سے انساں جھک کر
امیر مینائی
 

سیما علی

لائبریرین
پیری سے بدن ذرا ہوا زاری کر
دنیا سے انیس اب تو بیزاری کر

کہتے ہیں زبانِ حال سے موئے سپید
ہے صبحِ اجل کوچ کی تیاری کر
(میر انیس
 
Top