شیزان

لائبریرین
زندگی جیسی تمنا تھی، نہیں ،کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے


گھر کی تعمیر تصؔورہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے


بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں اُمید تو کافی ہے، یقیں کچھ کم ہے


اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اِس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے، کہیں کچھ کم ہے


آج بھی ہے تیری دُوری ہی اُداسی کا سبَب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں، کچھ کم ہے



شہریار
 

طارق شاہ

محفلین

گئیں یاروں سے وہ اگلی مُلاقاتوں کی سب رسمیں
پڑا جس دِن سے دِل بس میں تِرے، اور دِل کے ہم بس میں

شیخ محمد ابراہیم ذوق
 

کاشفی

محفلین
یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں
بےغرض ہوتے ہیں جو لوگ وہ کم ملتے ہیں

(شیاما سنگھ صبا)
 

کاشفی

محفلین
موت منظور ہے زندگی کے لیئے
جان حاضر ہے تیری خوشی کے لیئے

گلشنِ زیست سے وادیء موت تک
ہیں کئی امتحاں آدمی کے لیئے

جس نے مجھ کو غموں کے حوالے کیا
کر رہی ہوں دعائیں اُسی کے لیئے

زندگی سے جُدا ہونا آساں نہیں

حوصلہ چاہیئے خودکُشی کے لیئے
(شیاما سنگھ صبا)
 

کاشفی

محفلین
یہ زندگی عجب انداز سے گزرنے لگی
بچھڑ گئی جو میں تجھ سے تو روز مرنے لگی

اسی کو پیار، اسی کو جنون کہتے ہیں
کہ تیری یاد بھی آئی تو میں سنورنے لگی

وہ آفتاب کی مانند ہورہا تھا غروب
سیاہ رات میری روح میں اُترنے لگی

(شائستہ ثنا)
 

کاشفی

محفلین
جن پر لُٹا چکا تھا میں دنیا کی دولتیں
اُن وارثوں نے مجھ کو کفن ناپ کر دیا

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
باپ اور بیٹا پہلے آئیں تو پھر پوتا آتا
آنے کی ترتیب ہے لیکن جانے کی ترتیب نہیں

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
میرے پیمانے میں کچھ ہے اُس کے پیمانے میں کچھ
دیکھ ساقی ہو نہ جائے تیرے میخانے میں کچھ

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
جو بے قابو ہوں اُن پر وہ قابو بھیج دیتا ہے
وطن کو کوئی خطرہ ہو تو ٹیپو بھیج دیتا ہے

نہ گھبراؤ اندھیروں سے، اندھیری رات کا مالک
مسافر حوصلہ رکھیں تو جگنو بھیج دیتا ہے

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
محفل میں جسے غور سے سب دیکھ رہے تھے
دیکھا نہ میں نے اُسے تو اُس نے مجھے دیکھا

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
کسی کو فرصت نہیں کہ سوچے، خموشیوں کا جہان کیا ہے
یہاں کسی سے نہ پوچھ لینا کہ آنسوؤں کی زبان کیا ہے

(اقبال اشہر)
 
آخری تدوین:
Top