آج کا شعر۔۔۔۔(2)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحہ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں

اے دل ذرا سی جرءات رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں
(مصطفیٰ زیدی)
 

زینب

محفلین
یکسانیت سی لگتی ہے
کہانی میں ایک نیا موڑ لا دو

بظاہر کچھ بھی نہیں ہے درمیاں
مقدرہو گیاحائل بتا دو
 

زونی

محفلین


تھکن تو اگلے سفر کے لئے بہانہ تھا
اسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا


( افتخار عارف)
 

محمد وارث

لائبریرین
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں

(شاعر شائد مجروح سلطانپوری)


فرخ صاحب، یہ آتش کا شعر ہے، اور دوسرے مصرع میں 'ہیں' کی بجائے 'ہے' ہے۔

سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار، راہ میں ہے

مطلع اور مقطع کچھ یوں ہیں

ہوائے دورِ مئے خوشگوار، راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل، نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
 

زینب

محفلین
ہم تو ہیں اک اجڑے ہوئے شہر کی مثال

آنکھیں بتا رہی ہیں اداس تم بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

وجی

لائبریرین
رکھتے ہیں‌جو لوگ اوروں‌کے لئے پیار کا جزبہ
وہ لوگ کھبی ٹوٹ کر بھیکرا نہیں کرتے
 

وجی

لائبریرین
پھول سجائیں دامن میں اور زخموں‌کی پہچان نہیں
جو شخص کسی کا دکھ نا جانے پتھر ہے انسان نہیں
 

زینب

محفلین
میرے ساتھ تم بھی کرو دعا

یوں کسی کے ساتھ برا نا ہو

کہیں اور ہو نا یہ حادثہ

کوئی راستے میں جدا نا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top