شعیب صفدر

محفلین
گمراہی یا بہکنے سے بچنے کو فقط یہ لازم نہیں کہ بندہ نہ صرف خود نیکی کرے یا نیکی کی تلقین کرے بلکہ گمراہ لوگوں کی صحبت سے دور رہنا بھی اہم ہے. دعا صرف گناہ سے بچنے تک محدود نہ ہو بلکہ شیطان صفت لوگوں سے پناہ بھی دعا کا حصہ ہو.
گناہ کی حسرت و پچھتاوا
 
کسقدر پر کیف و پر لطف منظر تھا ،دیہی ہندوستان کی بساط میرے سامنے بچھی تھی جس پر پیادوں سے لیکر بادشاہ تک ہر ایک اپنی اپنی چال چلنے میں مصروف تھا،کھیت میں کام کرتے کسان،کارخانوں سے نکلتا دھنواں ،گاتی ہوئی ندیاں،مچلتے ہوئے جھرنے،آسمان کا بوسہ لینے کی کوشش میں مصروف پہاڑ،جھیلیں ،ان میں نہاتے پرندے اور ان سب کے درمیان اشرف المخلوق ہونے کا دعویٰ کرنے والا انسان ،کہیں گاڑی کھینچ رہا ہے تو کہیں کسی کی گاڑی پر بیٹھا ہے ،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جب آدم ؑ آسمان سے ہم انسانوں کو دیکھتے ہونگے تو اپنی اولاد کے اتنے مختلف حالات دیکھ کر انہیں کیسا لگتا ہوگا؟
مکمل تحریر کے لئے یہاخ کلک کریں ۔۔۔سیر و سیاحت
 
آج اگر کہا جائے کہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ کیسے ساتھ دیں؟ اتنے لوگ اور گروہ ہیں جو خود کو حق پر کہتے ہیں لیکن اصل میں حق پر کون ہے سمجھ نہیں آتا۔
یہ بات حقیقت ہے کہ میڈیا کے طوفان نے ایک منصوبے کے تحت حق اور باطل کے درمیان فرق کو دھندلا دیا ہے اور لوگوں کے درمیاں ابہام کی کیفیت کو فروغ دیا ہے لیکن آج کے اس دور میں بھی قرآن مجید، حدیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے اقوال کی مدد سے اہل حق کی نشانیاں پہچانی جا سکتی ہیں۔

یہ نشانیاں کیا ہیں؟

جاننے کے لئے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اہل حق کو پہچانیں!
 
جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ دین کی خاطر اپنی صلاحیتیں لگاؤ تو جواب ملتا ہے کہ ’’وقت نہیں ملتا‘‘۔
کیا ہماری روزمرہ زندگی کی مصروفیات اتنی اہم ہیں کہ ہمارے پاس اس چیز کے لئے ہی وقت نہ ہو جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا؟
آج کے دور کے مسلمان کی اصل مصروفیات کیا ہیں اور اس کا وقت صحیح معنوں میں کہاں لگنا چاہیے؟

جاننے کے لئے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

وقت نہیں ملتا۔۔۔
 
دنیا میں ہر مقصد کے حصول کے لئے محنت درکار ہے۔ محنت سے ہی دنیاوی مقاصد میں کامیابی ملتی ہے اور اس کے بغیر ناکامی۔ بیر کا بیج بو کر آم کا پھل پانے کی خواہش کرنا نادانی ہے تو دنیا کی ترقی کے لئے محنت کر کے اور دین کے لئے محنت کو پس پشت ڈال کر ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہمیں جنت مل جائے گی؟

دنیا کے لئے محنت سے دنیاوی سکون چین، آرام ملے گا لیکن آخرت کی بربادی، تباہی اور آگ۔ دین کی محنت سے دنیاوی مصائب، تکلیفیں اور مشکلیں ملیں گی لیکن اخروی ابدی آرام اور جنت۔

تو آپ کس محنت کو ترجیح دیں گے؟

مکمل تحریر کے لئے

آپ کونسا رستہ چنیں گے؟
 
اللہ کے دین کی طرف بلانے والے ان داعیان ِ حق کی شان ہی نرالی ہے
رب کی عبادت اور رب کے بندوں سے محبت و خیرخواہی ہی کو یہ سفینہ نجات سمجھتے ہیں
اپنی راحت آپکے کل پرقربان کرتے ہیں ،خون جگر آپ ہی کی بھلائی کے لئےجلا رہے ہیں
آپکے دفاع کے سبب انھیں شب وستم کاسامناہے
کہ یہ اپنے آپ سے مخلص ،رب سے سچے اور جنتوں کے عاشق ہوہی نہیں سکتے جب تک کہ یہ آپ کے ساتھ سوفیصدمخلص نہ ہوں
شرکی طرف سے آئے ہوئے ہر تیرکے سامنے سینہ سپر نہ ہو جائیں اور آپ کی بھلائی پراپنی زندگی قربان نہ کردیں ۔۔
ان کے غم ،دکھ اور درد آپ ہی تو ہیں۔۔
دربدری ،ترآنکھوں اورخون آلود پھٹے جسموں کے ساتھ آپ کوپیغام دے رہے ہیں

” مرے لوگو! تم ہی توغم ہمارا ہو!“

مکمل تحریر کے لئے:
مرے لوگو!
 
آج پاکستان کے مسلمانوں کو آنکھیں کھولنے اور حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہ اگر انہوں نے اپنا نظام انہی جمہوری شعبدہ بازوں کے ہاتھ دیے رکھا تو جو قحط سالی آج تھر میں ہے وہ باقی ملک کا بھی مقدر بن سکتی ہے۔
اس خطے کے عوام کی فلاح صرف اور صرف اسلامی نظام میں ہے اور کسی نظام میں نہیں۔ اس حقیقت کو ہم جتنی جلدی سمجھ جائیں اتنا ہی ہمارے لئے بہتر ہو گا
ورنہ پتہ نہیں یہ جمہوری شعبدہ باز اپنی حرکتوں سے اس ملک کی عوام کو کس اندھی کھائی میں پھینک آئیں کہ جہاں سے نکلنا بھی ممکن نہ رہے۔

مکمل تحریر پڑھنے کے لئے:

تھر کا بحران اور مسلم حکمران
 
ذرا سوچیے!
اگر کسی جسم کے تمام اعضا علیحدہ علیحدہ کردیے جائیں تو کیا ان کی اپنی آزاد حیثیت میں بقا ممکن ہے؟
اس امت کو نبی اکرم نے ایک جسم کہا ہے اور یہ امت تیرہ سو سال تک ایک جسم کی مانند امت واحد رہی۔
پھر کفار نے اس کے چھپن ٹکڑے کر دیے اور ساتھ میں انہیں ”میرا وطن“، ”مادر وطن“ اور ”پاک سرزمین“ جیسا میٹھا نشہ بھی پلا دیا تاکہ اسی نشے میں سوئے رہیں اور بھول جائیں کہ انہوں نے حقیقت میں کیا کھو دیا۔
ہم کس چیز کا جشن آزادی مناتے ہیں؟
امت سے آزادی کا؟
کیوں کہ کفار سے تو ہم آج تک آزاد نہ ہو سکے!!!

مکمل تحریر پڑھنے کے لئے

لکیروں میں بٹی امت
 

فخرنوید

محفلین
ابھی گلی میں واپس آیا ہی تھا کہ تین نوجوان ہاتھ میں ہیرو کی نوٹ بکس پکڑے کبھی ایک دروازے سامنے کھڑے ہو تو کبھی دوسرے دروازے سامنے کھڑے ہو کو دیکھا۔ ساتھ ایک کاغذ کا ٹکڑہ دروازہ کھولنے والے کو پکڑا رہے تھے۔ جونہی میں قریب پہنچا تو دوست نے ایک لڑکے کو آواز دے کر بلوا لیا کہ ادھر آویں نا۔

مزید تفصیل: مذہب کے نام پر کاروبار اور ہم عوام
 

محمداحمد

لائبریرین
مولانا حسرت موہانی اور اردوئے معلیٰ

بہ یک وقت 'رئیس الاحرار' اور 'رئیس المتغزلین' کا لقب پانے والے سید فضل الحسن کو دنیا مولانا حسرت موہانی کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اودھ کے علاقے موہان کے رہنے والے تھے۔ اور موہان کی نسبت اپنے تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ موہان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے مولانا علی گڑھ کالج آ گئے۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی کالج میں مولانا حسرت کی شہرت ہو گئی تھی۔ وہ کالج یونین کے جلسوں میں تقریریں کرتے اور مباحثوں میں بھی حصہ لیتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسرت مشاعروں میں غزلیں بھی پڑھتے تھے۔ مولانا نے علی گڑھ کالج میں ایک ادبی انجمن۔۔۔۔۔

مزید پڑھیے۔
 

فخرنوید

محفلین
ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل ہیں بلکہ معاشرہ مسائلستان بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی موسم ہو، کوئی بھی مہینہ ہو ہمیں سارا سال ان مسائل کے ساتھ نپٹتے اور لڑتے گزارنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود یہ مسائل ہمارے معاشرے میں انصاف کے نا پید ہو جانے کی وجہ سے ہیں۔ اور انصاف نہ ہونے کی وجہ ہر کوئی انفرادی طور پر زمہ دار ہے۔ جب تک حقوق اللہ بہتری سے انجام نہیں دئیے جاتے تب تک معاشرے میں انصاف نہیں آئے گا۔ اور جب تک انصاف نہیں آئے گا ہمیں ان مسائل کا سامنا کرتے رہنا ہو گا۔
تفصیل:معاشرتی برائیاں اور اردو بلاگرز کی ذمہ داریاں
 

آوازِ دوست

محفلین
میرے خاندان سے ایک ننھے سے ساتھی نے بھی بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور ان کا مقصد پاکستان کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ ان کے والد ایک معروف سیاح اور سفرنامہ نگار ہیں اور کئی دہائیوں کی سیاحت کے دوران حسین لمحات کو اپنے کیمروں میں قید کرتے رہے ہیں۔ اب ان کے صاحبزادے نے اپنے والد کی فوٹوگرافی کو منظر عام پر لانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
وہ بہت تیزی سے اپنے تصاویر کے مجموعے میں سے خوبصورت تصاویر پیش کرتے جا رہے ہیں۔ امید ہے آپ لوگوں کو پسند آئیں گی۔
اس سلسلے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار تبصروں کے ذریعے کیجیے اور بلاگنگ کی دنیا کے اس ننھے مہمان کو درج ذیل ربط (link) پر خوش آمدید کہیے۔
عکس
ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات
 

آوازِ دوست

محفلین
ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل ہیں بلکہ معاشرہ مسائلستان بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی موسم ہو، کوئی بھی مہینہ ہو ہمیں سارا سال ان مسائل کے ساتھ نپٹتے اور لڑتے گزارنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود یہ مسائل ہمارے معاشرے میں انصاف کے نا پید ہو جانے کی وجہ سے ہیں۔ اور انصاف نہ ہونے کی وجہ ہر کوئی انفرادی طور پر زمہ دار ہے۔ جب تک حقوق اللہ بہتری سے انجام نہیں دئیے جاتے تب تک معاشرے میں انصاف نہیں آئے گا۔ اور جب تک انصاف نہیں آئے گا ہمیں ان مسائل کا سامنا کرتے رہنا ہو گا۔
تفصیل:معاشرتی برائیاں اور اردو بلاگرز کی ذمہ داریاں
میرے ناقص علم کے مطابق تو معاشرے کے مسائل حقوق العباد اور قانون کے احترام سے حل ہوتے ہیں۔ مذہب کو جہاں فرقہ واریت اور قتل و غارت گری کا حیلہ بنا لیے جائےوہاں لوگ حقوق اللہ کے ذریعے محض اپنی اپنی جنت کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔
 
Top