منصور مکرم

محفلین
ایک قبائلی لڑکے کے خوابوں کا پاکستان

اردو بلاگرز کمیونٹی کی طرف سے میرے خوابوں کا پاکستان کے عنوان کے تحت ایک انعامی مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔اور اسکے ساتھ ہم پر زور دیا گیا کہ بھئی لکھنا تو ضرور ہے،ہم نے بڑا کہا کہ جناب ہم مقابلوں والے رائٹر نہیں،لیکن ایڈمن صاحب کا کہنا تھا کہ آپکو لکھنا ہی ہے ،چاہے جیسے بھی لکھ لیں۔

چنانچہ اس پریشانی میں ہم سرگرداں گھوم رہے تھے کہ یکایک سامنے سے دلاور خان آتے نظر آئے۔
دلاور خان ایک قبائلی لڑکا ہے ،جسکی عمر 20-22 سال تک ہوگی، چھوٹی موٹی مزدوری کرکے اپنے ابو کا ہاتھ بٹاتا ہے۔

خیر ہم تو بڑے خوش ہوئے کہ لوجی مسئلہ ہی حل ہوگیا۔لوگ اپنے اپنے خواب بتاتے ہیں پاکستان کے بارئے ،آج میں ذرا دلاور خان کے خواب جان لوں ،کہ موصوف کیا خواب دیکھتے ہیں پاکستان کے بارئے میں۔

چنانچہ علیک سلیک کے بعد میں اسکو قریبی چائے کے ہوٹل پر لے گیا ،اور ہم باہر تھڑے پر بیٹھ گئے۔دلاور خان کے خواب سننے کیلئے چائے پلانا تو ضروری تھا ،ورنہ تو یہ خطرہ پورے جوبن پر تھا کہ وہ خواب ادھورا چھوڑ کر نکل جائیں۔

 

محمداحمد

لائبریرین
بھائی کی محبت کے عکاس دو نوحے ۔ فیض احمد فیض اور مصطفیٰ زیدی کے قلم سے

کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے۔ پھر اگر ایسے لوگ آپ کے قریبی ہوں۔ آپ کے اہلِ خانہ میں سے ہوں تو یہ زخم اور بھی گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جُدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح ۔۔۔۔

مکمل تحریر یہاں پڑھیے۔
 
مسلمانوں کا کام ہی ہے صرف رونا ہے ،یہ اُن کی عادت بن چکی ہے۔اب انھیں کون بتائے کہ ہم واقعی میں ہمیشہ روتے رہتے ہیں یا درد اور تکلیف سے کراہتے ہیں۔بقول شاعر:

میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں
انھیں دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے


مکمل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر، جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"طلوعِ اشک" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بے وارث لمحوں کے مقتل میں
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مَیں نے پہلا شعر کب کہا تھا۔ (یہ بہت پہلے کی بات ہے)۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں پہلا "سچ" کب بولا تھا؟ (یہ بھی شاید بہت پرانا قصّہ ہے)۔ پہلا شعر اور پہلا سچ کون یاد رکھتا ہے؟۔ اور اتنی دُور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُدھر کون سی روشنی ہے۔ گھُپ اندھیرے کی ریت پر ہانپتے ہوئے چند بے وارث لمحے۔ پچھتاوے کی زد میں جانے کب اور کہاں کھو گئے۔؟
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں
"ماضی" بھی تو کتنا بخیل ہے۔ کبھی کبھی تو حافظے کی غربت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر اندھے کنویں کی طرح کچھ بھی تو نہیں اگلتا۔ اپنے اندر جھانکنے والوں سے پوری بینائی وصول کرتا ہے۔ بِیتے دنوں کے اُس گھُپ اندھیرے میں بھی کیا کچھ تھا۔؟

مکمل تحریر پڑھیے
 
احوالِ نا سازیِ طبع اور یاراں
رات جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نگاہ گیلری پر پڑی ۔ جو بالکل ویران تھی ۔یہ منظر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میرے کمرے کی گیلری میں کچھ دنوں سے گلہریوں کی آمد نہیں ہوئی اور میں تنہا درو دیوار کو تکتا رہتا ہوں ۔ میں بے تابی سے صبح کا انتظار کرنے لگا لیکن گلہریاں دکھائی نہ دیں ۔ مجھے یاد آیا کہ میں تو کل تک ان گلہریوں کوکوسا کرتا تھا اور جب وہ صبح کے وقت چلانا شروع کرتیں تو مجھے بہت غصہ آتا تھا کہ کم بخت نیند خراب کرنے چلی آتی ہیں ۔انھیں زور زورسےڈانٹتا اور کرسی پٹختے ہوئے دوبارہ دروازہ بند کر سوجاتا اور یوں گلہریاں بھاگ جاتیں ۔شاید ڈر کر ۔۔مجھے احساس ہوا کہ ان کی آواز مجھے اس تنہائی میں کسی کے قرب کا احساس دلا تی تھیں ۔لیکن گلہریاں شاید روٹھ گئی ہیں اس لئے تو اب نہیں آتیں۔
مجھے ایک ترکیب سوجھی ۔بیماری کے ان دنوں میں دوست میرے لیے جو بسکٹ لے کر آئے تھے میں نے ان میں سے دوچار گیلری میں رکھ دئیے۔مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب گلہریوں کو گیلری میں ادھر سے ادھر پھدکتے دیکھا ۔ صبح ان کی آواز سے ہی بیدار ہوا نماز بھی پڑھی اور خوب پڑھائی بھی کی ۔اب میں انھیں ڈانٹتا نہیں ،میں نے ان سے اب دوستی کر لی ہے ۔بہت دنوں سے ایک الارم کلاک خریدنے کاسوچ رہا تھا ۔موبائل والے الارم سے نہیں اٹھ پاتا کئی مرتبہ تو یہ بجتا بھی نہیں ۔لیکن اب اس کی ضرورت نہیں میں نے گلہریوں سے کہہ دیا ہے مجھے روزانہ چیخ چیخ کر جگا دینا تمہیں بسکٹ بھی دوں گا گلہریاں بھی کافی سمجھدار ہیں اپنی ڈیوٹی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں ۔ان کے بدولت جلد اٹھنا بھی نصیب ہو رہا ہے اور صحت بھی اب کافی اچھی اوربہتر ہے ۔
اس سلسلہ کی مکمل تحریر کے لئے کلک کیجئے
 
آخری تدوین:
محمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کسی کی زبانی سنا تھا ”فساد تو دراصل فروٹ ہوتا ہے اس سے پہلے کھاد ،پانی اور بیج بویا جاتا ہے نفرت ،تعصب ،ظلم اور بربریت کا “۔اس قول کی سچی تعبیر اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہم مغربی یوپی کے علاقہ مظفر نگر اور اس کے مضافات میں ہوئے فسادات کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں پہونچے ۔پولس اور فورس کی بھاری نفری نے نقض امن کی دہائی دیکر ہمیں ان علاقوں میں جانے تو نہیں دیا جہاں یہ واردات انجام دی گئی تھیں ۔مگر ہم نے متاثرین پر ہوئے ظلم و تشدد کی کہانی سننے اور حقیقی واقعہ کی تلاش کے لئے کیمپوں میں بے یار و مددگار اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے متاثرین سے ملاقات کی۔ریاست اترپردیش کے ضلع کاندھلہ ،شاملی اور باغپت جیسے ضلعوں کے مختلف مدرسوں ،اسکولوں، عید گاہوں و گھروں میں مقیم ساٹھ ہزار سے بھی زائد مہاجرین کی الگ الگ داستان اور الگ الگ واقعات تھے ،جنھیں سنتے ہوئے ہمارے دل لرز رہے تھے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ان کے علاوہ ہزاروں لوگ قرب و جوار میں اپنے رشتے داروں کے یہاں چلے گئے ہیں ۔پچاسوں ہزارسے بھی زائد کی تعداد میں اپنے جائداد ،لٹے پٹے گھر ،جانور اور اثاثہ کو کھو دینے والے مہاجرین کے چہرے سے خوف اور دہشت صاف عیاں تھی ۔
بقیہ کے لئے کلک کیجئے ------​
مظفر نگر فساد:آنکھوں دیکھا حال

 

گرائیں

محفلین
میرے بلاگ پر تازہ ترین تحریر کا اقتباس:
عنوان: دی گریٹ گیم
اقتباس:
شائد نواز شریف حکومت کو دباؤ میں لانے کے لئے یہ حملہ کافی نہیں تھا۔ اس لئے کچھ دنوں بعد پشاور میں ایک چرچ پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اور جس کے نیتجے میں بہت بے گناہ غیر مسلم مارے گئے۔ اس حملے سے جہاں نواز حکومت دباؤ میں آئی کونکہ وزیر اعظم نے امریکہ جانا تھا، وہاں تحریک انصاف کی حکومت بھی دباؤ میں آ گئی۔ کیونکہ عمران خان کافی عرسے سے طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔ گویا ایک تیر سے دو شکار۔

ڈھکے چھپے الفاط میں کافی مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ اپر دیر کا حملہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش تھی مگر کس کی سازش تھی؟ یہ کوئی نہیں بتا پاتا۔ کیونکہ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اُس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ قصہ ختم۔

اب مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ جنگ ہی واحد حل ہے۔ ایسے بدمعاشوں سے جنگ ہونی چاہئے جو ہمارے معصوم ہم وطنوں کو مذہب کے نام پر موت کی نیند سُلا دیتے ہیں۔ یہ ہماری جنگ بن چکی ہے۔ اور اب ہمیں اس جنگ کو لڑنا ہی ہوگا۔

مگر میرے جیسے بزدل اور غیر محب وطن لوگ کیا کریں جب ان کو مندرجہ ذیل قسم کی اخباری رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں؟
---- بقیہ میرے بلاگ پر۔۔
 

گرائیں

محفلین
عالمگیریت اور طالبانیت کا دوراہا۔۔

سب سے پہلے تو میں اُن قارئین سے معذرت کروں گا جن کے خیالات کو میں طالبانیت کا نام دینے جا رہا ہوں۔ مجھے امید ہے وہ تشبیہ دینے پر برا نہیں مانیں گے کیونکہ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ اب ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے کی شدت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ مخاطب کی مختلف رائے کو بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اور اختلاف رائے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی بجائے مخاطب کو پہلے سے بنے کسی سانچے میں جھٹ سے ڈھال دیا جاتا ہے۔

 

گرائیں

محفلین
نا مکمل مقدمہ ءاردو


اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقلمند لوگوں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ وقت کی زبان کو بھی اپنا لیا ہے۔ اب ہم اپنی صورتحال پر غور کریں تو ہم نے ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے فارسی کی ضد نہیں چھوڑی بیشک اسے عام لوگوں میں قبول ہی نہ کیا جا رہا ہو۔ اگر ہمارے ترجمہ کرنے والے فارسی زبان کی بجائے پاکستان کی اپنی زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، کشمیری، سرائیکی اور دیگر زبانوں سے الفاظ تلاش کریں تو وہ الفاظ ہمارے لئے جانے پہچانے بھی ہوں گے اور قابل قبول بھی لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی کو چھوڑنا ضروری ہے۔
فارسی کا عَلم بلند کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا تہذیبی اور ادبی ورثہ فارسی میں ہے مگر فارسی کے یہ علمبردار سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی وغیرہ کے ہزاروں برس پرانے قیمتی تہذیبی ورثے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فارسی حملہ آوروں کی زبان تھی، انہی کی تہذیب اور انہی کا ادب تھا۔ ہماری تہذیب اور ادب ہمارے اپنے علاقوں میں گم کر دیا گیا ہے جن میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر اور سرائیکی وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔
 
ہم جتنی باریکی سے ہندوستان اور ترکی کا جائزہ لیتے ہیں، علم وادب اورثقافت کی پرتیں تہہ در تہہ کھلتی جاتی ہیں۔ہمیں اس ملک کی قدر کرنی چاہئے اور ایک ایسے دور میں جب کہ ہمارے ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ایک مخلص اور ترقی کی طرف گامزن ملک کے طور پر ترکی کے احساسات و جذبات کی قدر اور خلوص کا اسی انداز میں استقبال کرنا چاہئے۔ہمارے ملک کے صدر پرنب مکھر جی نے وہاں جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے اسے حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ایک دوست مملکت کے خلوص اور محبت کا تقاضہ بھی ہے اور خود ہمارے ملک کے امن ومفاد عامہ کے لئے مفید ترین بھی۔اگر انقرہ ا اور دہلی کی یہ کوشش بار آور ثابت ہوتی ہے تو یہ نہ صرف دونوں ملکوں کے لئے بہتر ہوگا۔بلکہ اس پورے خطہ کے لئے بھی مفید ،اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ اس خطہ کے مسائل کو حل کرنے کے حوالہ سے ترکی انتہائی مثبت کردار ادا کرنیکی پوزیشن میں ہے، کیونکہ ترک قیادت کو پاکستان میں بھی تمام حلقوں کا اعتماد حاصل ہے۔ ہندوستان ،پاکستان اور افغانستان کے مسائل کو حل کرنے میں ترکی کا معاشی درجہ بھی ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کارپردازان سلطنت ان امکانات کو جانچ ٹٹول کر نیک نیتی سے آگے بڑھنے کا تہیہ کریں اور پھر اس ضمن میں جلد از جلد عملی اقدامات اٹھائیں۔۔۔۔۔۔
مکمل مضمون کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔
ترکی و ہند تعلقات اور پرنب کا دورہ
http://alamullah.blogspot.in/2013/10/blog-post_8.html
 

فخرنوید

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ:کمیشن کہانی اوراخبارات
پاکستان میں ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہی افس شاہی کی تو جیسے عید ہو جاتی ہے اور وہ متعلقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز حضرات کے ساتھ ملکر ایسا متنجن پکاتے ہیں کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل شدہ ٹیکس کو اس کنجری پر نچھاور ہونے والی دولت کی طرح سمیٹتے ہیں کہ اللہ پناہ

مزید تفصیل:
گزشتہ سے پیوستہ:کمیشن کہانی اوراخبارات
 
بچپن سے لے کر بالغ ہونے تک ہی بچے کو ماں باپ کے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہےایسے میں اسے نوکر کے سہارے چھوڑ دینا اسے تباہی کے راستوں کا پتہ دینا ہے۔ یہ بات لڑکے اور لڑکی دونوں کے باب میں مساوی طور پرکہی جاسکتی ہے ۔ بچے کو سائیکل سکھانے کے لئے اسے ایسی سائیکل دلائی جاتی ہے جس کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے پہیے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جب بچے کو توازن بنانا آ جاتا ہے اور اسے چلاتے ہوئے دیکھ کراعتمادپالیتے ہیں کہ اب اس کے پہیے زمین کو نہیں چھو رہے ہیں تب ہی اسے چھوڑا جاتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی پرورش کی جانی چاہئے بچوں کی ۔ماہرین کے مطابق جب تک ہم اس بات پرمطمئن نہ ہو جائیں کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہو گئی ہے تب تک ہمیں ان کے ساتھ ایک قریبی دوست کی طرح ہی رہنا چاہئے اور بچے میں اتنا یقین پیدا کر دیا جانا چاہئے ماں باپ سے کوئی بھی بات بغیر کسی جھجھک کے کہہ سکے ۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے بہت سی الجھنیں یوں ہی حل ہو جاتی ہیں۔ بالغ ہوتے بچے بہت نازک موڑ سے گزررہے ہوتے ہیں ۔ آج کل کے دور میں گھر میں سارے سہولت کے سامان موجود ہیں ،انٹر نیٹ اور ٹی وی کے ذریعے اچھی بری تمام چیزوں تک رسائی ہے ایسے میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور بھی ضروری ہے اور ان پر چیتے کی نظر رکھنا ہی ان کی حفاظت کاضامن ہے ۔
مکمل مضمون کے لئے ربط:
 

گرائیں

محفلین
کالے آ لتھے کاگان

یعنی کالے کاغان میں آ اترے۔ مردان میں تعینات 55 دیسی پیادہ فوج کے اُن سپاہیوں کی کہانی جنھوں نے اس خطے میں پہلی بغاوت کی۔ کاغان میں ایک نالے کانام شہید کٹہ کیوں ہے؟؟
 

حیدرآبادی

محفلین
ہم جنس پرستی - تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی

یہ جو بار بار "شخصی آزادی" کے نعرے اچھالے جاتے ہیں۔ کبھی اس کی کچھ واضح تعریف بھی تو کیجیے۔ کیا جنگل کے قانون میں اور انسانوں کے مہذب معاشروں میں واقعتاً کوئی فرق نہیں؟ اگر آپ absolute freedom کے دعویدار ہیں تو اس کا دوسرا مطلب ہی "جنگل راج" ہوتا ہے پھر آپ اپنے "مہذب" ہونے کا دعویٰ قطعاً نہیں کر سکتے!
اور اگر آپ جنگل کے قانون اور انسانوں کے بنائے گئے مہذب معاشرے میں کوئی فرق نہیں کرتے تو پھر اسکول کالج اور جامعات میں یہanthropology کے اسباق کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ کیوں یہ سائنس پڑھاتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح تہذیب نے وحشی کو انسان بنایا؟ اسی انسانی تہذیب نے تو ہمیں بتایا ہے کہ "ہم جنسیت" ایک aberration ہے جس کے دور رس نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں ۔۔۔ اس قدر سنگین کہ قرآن (اور بائبل) نے لوط علیہ السلام کی قوم کا عبرت انگیز واقعہ سنا کر ساری انسانیت کو ہوشیار کر دیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ شخصی آزادی پر مصر ہیں تو پھر ایک دن انسان کا لباس بھی اترے گا ، سڑکوں پر صرف مختصر زیر جامہ میں خواتین نظر آئیں گی اور ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ صرف ایک دہلی ریپ کیس نہیں ۔۔۔ ہر شہر گلی محلہ سے روزانہ سینکڑوں ایف آئی آر درج ہونگی تب آپ کو جو بھی فیصلے کرنے ہوں گے ضرور کیجیے گا حضور !
 

محمداحمد

لائبریرین
عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں

عبید الرحمٰن عبیدؔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بہت ہی عزیز بھائی بھی ہیں اور میرے شفیق اُستاد بھی ۔ اگر آج میں کچھ ٹوٹے پھوٹے شعر نظم کر لیتا ہوں تو اس کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ ہے۔ سچ پوچھیے تو ۔۔۔۔۔۔

مزید پڑھیے۔
 
آج صبح گھر سے نکلا تو شاہراہِ فیصل پر جابجا بینر لگے دیکھے جن کے مطابق کے ای ایس سی یعنی کراچی الیکٹرک سپلائے کارپوریشن نے اپنا نام بدل کر ’کے ای‘ یعنی کراچی الیکٹرک رکھ لیا ہے۔ تاہم یہ اعلان اُن روایتی اعلانات و اشتہارات کی طرح نہیں تھا کہ ’میں مسمات کے ای ایس سی اپنا نام تبدیل کرکے کے ای رکھ رہی ہوں۔ چنانچہ مجھے آئندہ اسی نام سے پکارا اور لکھا جائے۔‘
مکمل تحریر پڑھیں:
’کے ای ایس سی‘ اب ’کے ای‘
 
Top