کاشفی

محفلین
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا


مختصر حال زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا


ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا


خاک نبھتی مری ترے دل میں
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا


تم مرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا


ابر رحمت جو ہو گیا مشہور
کسی مے کش کا دامن تر تھا


جب انہیں شوق تھا سنورنے کا
ایک اک آئنہ سکندر تھا


آنسوؤں کی تھی کیا بساط مگر
دیکھتے دیکھتے سمندر تھا


کیسی آزاد زندگی ہے جلیلؔ
در دل پر جب اپنا بستر تھا
 
Top