شکیب جلالی

  1. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے

    جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار ، یاد ہے پھر پھول توڑنے کو بڑھاتے ہو اپنا ہاتھ وہ ڈالیوں میں سانپ کی پُھنکار، یاد ہے وہ بے وفا کہ جس کو بھلانے کے واسطے خود سے رہا ہوں برسرِپیکار، یاد ہے اب کون ہے جو وقت کو زنجیر کر سکے سایوں سے ڈھلتی دھوپ کی تکرار یاد ہے...
  2. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے

    محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے مگر تنہائہوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں تمہارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے...
  3. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے

    وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے جو لُطفِ شواشِ طوفاں تمہیں اٹھانا ہے دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو بُجھے بُجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے نظر اٹھا کے جُنوں دیکھ لے اگر اک بار تجلیات کی دھاروں میں آگ لگ جائے بہار ساز ہے...
  4. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر

    کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے...
  5. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے

    جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے مجھ پہ مائل بہ کرم ہے تو مجھے دریا دے کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے رختِ جاں کوئی لٹانے اِدھر آ بھی نہ سکے ایسے مشکل تو نہیں دشتِ وفا کے جادے بیتی یادوں کا تقاضا تو بجا ہے لیکن گردشِ شام و سھر کیسے کوئی ٹھہرا دے...
  6. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی غمِ دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں

    غمِ دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے سب کا اس دور میں یہ حال ہے، میرا ہی نہیں برق کیوں ان کو جلانے پہ کمر بستہ ہے مَیں تو چھاؤں میں کسی پیڑ کے بیٹھا ہی نہیں اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا کون سا عرش ہے جس کا کوئی...
  7. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی پتھر مارو، دار پہ کھینچو، مرنے سے انکار نہیں

    پتھر مارو، دار پہ کھینچو، مرنے سے انکار نہیں یہ بھی سن لو حق کی آخر جیت ہی ہوگی ہار نہیں اپنے خونِ جگر سے ہم نے کچھ ایسی گل کاری کی سب نے کہا یہ تختہء گل ہے زنداں کی دیوار نہیں سوکھی بیلیں ، داغی کلیاں، زخمی تارے روگی چاند ایک ہی سب کا حال ہے یارو ، کون یہاں بیمار نہیں اب بھی اثر ہے فصلِ خزاں...
  8. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی پیار ہے بھید کا گہرا ساگر، اس کی تھاہ نہ پاؤگے

    پیار ہے بھید کا گہرا ساگر، اس کی تھاہ نہ پاؤ گے جس دم پانی سر سے گزار، آپ کہیں کھو جاؤ گے دھوپ بری ہے اور نہ چھاؤں، سمے سمے کی ساری بات رنگوں کے اس کھیل سے کب تک اپنی جان چراؤ گے جیتی جاگتی تصویریں ہیں دنیا بھر کی آنکھوں میں اپنا آپ جہاں بھی دیکھا سمٹو گے شرماؤ گے اتنا ہی بوجھل خاک کا بندھن ،...
  9. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں

    بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں سواد شب میں ستارے مجھے قبول نہیں یہ کوہ و دشت بھی آئینہِ بہار بنے فقط چمن کے نظارے مجھے قبول نہیں تمہارے ذوقِ کرم پر بہت ہوں شرمندہ مراد یہ ہے سہارے مجھے قبول نہیں مثال موجِ سمندر کی سمٹِ لوٹ چلو سکوں بدوش کنارے مجھے قبول نہیں میں اپنے خوں سے جلاؤں گا رہ...
  10. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے

    خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلے میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی نہ ہو...
  11. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی خوشبو اڑی ہے بات کی اکثر کہے بغیر

    خوشبو اڑی ہے بات کی اکثر کہے بغیر جو کچھ تھا دل میں آگیا ہے باہر کہے بغیر مجھ کو کنوئیں میں ڈال گئے جو فریب سے میں رہ سکا نہ ان کو برادر کہے بغیر پا رکھ تو میں بڑا ہوں، مگر کیا چلے گا کام اک ایک سنگ و خشت کو گوہر کہے بغیر دھل بھی گئی جبیں سے اگر خون کی لکیر یہ داستاں رہے گا نہ پتھر کہے بغیر...
  12. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا

    ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا کہو تو زخم رگِ گل کا تذکرہ چھڑیں کہ زیرِ بحث ہے کردار آج کانٹوں کا ہم اپنے چاک قبا کو رفو تو کر لیتے مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا چمن سے اُٹھ گئی رسمِ بہار ہی شاید کہ دل پہ بار نہیں ہے رواج کانٹوں کا درِ قفس پہ اُسی...
  13. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا

    ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا یہ شگفت گل کا موسم بڑا خوشگوار ہوتا سبھی محو جستجو ہیں کسے رہنما کہیں ہم کوئی بے نیازِ منزل سرِ رہ گزار ہوتا غمِ دو جیاں کی مجھ پر جو عنایتیں نہ ہوتیں ترا حسن حسن ہوتا ،مرا پیار پیار ہوتا مری انتہا پسندی سے شکایتیں ہیں ان کو غمِ جادواں وگرنہ مجھے ناگوار...
  14. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی آ کاش کے ماتھے کی اُجلی تحریریں سجدہ کرتی ہیں

    آ کاش کے ماتھے کی اُجلی تحریریں سجدہ کرتی ہیں آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں وہ جال ہوں کالی، زلفوں کے تار ہوں سونے چاندی کے دیوانے ہیں ہم دیوانوں کو زنجیریں سجدہ کرتی ہیں ان نازک نازک پوروں سے سنگین لکیریں ڈالی ہیں تدبیر کے زانو پر اکثر تقدیریں سجدہ کرتی ہیں مے رنگ لہو کے...
  15. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی یاد ایام سے شکوہ نہ گلہ رکھتی ہے

    یاد ایام سے شکوہ نہ گلہ رکھتی ہے میری جرات نگہِ پیش نما رکھتی ہے سطحی رنگ فسانوں کا ہے بہروپِ حیات دل کی گہرائی حقائق کو چھپا رکھتی ہے اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم جیسے خاموشی مظلوم صدا رکھتی ہے اپنی ہستی پہ نہیں خود ہی یقیں دنیا کو یہ ہر اک بات میں ابہام روا رکھتی ہے میری ہستی کہ رہیں...
  16. طارق شاہ

    شکیب جلالی :::::: کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی :::::: Shakeb Jalali

    شکیب جلالی غزل کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی اُونچی ہوں فصِیلیں، تو ہَوا تک نہیں آتی شاید ہی کوئی آسکے اِس موڑ سے آگے ! اِس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی وہ گُل نہ رہے نِکہتِ گُل خاک مِلے گی ! یہ سوچ کے، گلشن میں صبا تک نہیں آتی اِس شورِ تلاطُم میں کوئی کِس کو پُکارے ؟ کانوں میں یہاں،...
  17. طارق شاہ

    شکیب جلالی ::::: اب یہ وِیران دِن کیسے ہوگا بسر ::::: Shakeb Jalali

    شکیب جلالی غزل اب یہ وِیران دِن کیسے ہوگا بسر رات تو کٹ گئی درد کی سَیج پر بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر اُس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر گھر میں طوفان آئے زمانہ ہُوا اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں...
  18. طارق شاہ

    شکیب جلالی ::::: مجھ سے مِلنے شبِ غم اور تو کون آئے گا ::::: Shakeb Jalali

    غزل مجھ سے مِلنے شبِ غم اور تو کون آئے گا میرا سایہ ہے جو دِیوار پہ جم جائے گا ٹھہرو ٹھہرو، مِرے اصنامِ خیالی ٹھہرو ! میرا دِل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دِلاسے مجھ کو زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا عزم پُختہ ہی سہی ترکِ وفا کا، لیکن مُنتظر ہُوں کوئی آکر مجھے...
  19. نیرنگ خیال

    شکیب جلالی یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ

    یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ...
  20. محمداحمد

    شکیب جلالی نظم ۔ پاداش ۔ شکیب جلالی

    پاداش کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو تمھیں کیا خبر ہے وہاں اَن گنت کُھردرے پتھروں کو سجل پانیوں نے ملائم، رسیلے، مدھر گیت گا کر امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے وہ پتھر نہیں تھا جسے تم نے بے ڈول، اَن گھڑ سمجھ کر پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا اب اس کے سلگتے تراشے اگر پاؤں میں...
Top