شکیب جلالی خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے

خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلے
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
٭٭٭
شکیب جلالی​
 
Top