شکیب جلالی ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفت گل کا موسم بڑا خوشگوار ہوتا

سبھی محو جستجو ہیں کسے رہنما کہیں ہم
کوئی بے نیازِ منزل سرِ رہ گزار ہوتا

غمِ دو جیاں کی مجھ پر جو عنایتیں نہ ہوتیں
ترا حسن حسن ہوتا ،مرا پیار پیار ہوتا

مری انتہا پسندی سے شکایتیں ہیں ان کو
غمِ جادواں وگرنہ مجھے ناگوار ہوتا

یہ کسی اکیلے راہی کے نقوش پا ہیں یارو
کوئی کارواں گزرتا تو یہاں غُبار ہوتا

یہ خرد کی مصلحت ہے اسے دور ہی سے دیکھوں
یہ جنوں کی ہے تمنا کوئی ہم کنار ہوتا

ابھی چاند زیر پا ہے، ابھی گرد راہ تارے
مرے فکر کا مسافر کہاں شب گزار ہوتا
شکیب جلالی
مارچ 1954ء
 
Top