شکیب جلالی خوشبو اڑی ہے بات کی اکثر کہے بغیر

خوشبو اڑی ہے بات کی اکثر کہے بغیر
جو کچھ تھا دل میں آگیا ہے باہر کہے بغیر

مجھ کو کنوئیں میں ڈال گئے جو فریب سے
میں رہ سکا نہ ان کو برادر کہے بغیر

پا رکھ تو میں بڑا ہوں، مگر کیا چلے گا کام
اک ایک سنگ و خشت کو گوہر کہے بغیر

دھل بھی گئی جبیں سے اگر خون کی لکیر
یہ داستاں رہے گا نہ پتھر کہے بغیر

ہر چند مانگتا ہوں بس اک بوند زہر کی
ملتی نہیں کسی کو سمندر کہے بغیر

اُبھری ہوا میں لہر تو پھیلے گی دور تک
بہتر یہی ہے بات ادا کر کہے بغیر

یہ اور بات ہے کوئی دستک نہ سن سکے
آتی نہیں ہے موت بھی اندر، کہے بغیر

کتنی بلندیاں ہیں شکیب انکسار میں
اونچا میں ہو گیا اسے کمتر کہے بغیر​
شکیب جلالی
 
Top