محمد احسن سمیع

  1. بدر القادری

    برائے اصلاح

    اب کیا کہوں کہ ربط ہے کیا آبلوں کے ساتھ میلوں سفر کیا ہے انھیں دوستوں کے ساتھ زاہد بھی سیکھ جائیںگے آدابِ بندگی بیٹھینگے چند روز اگر مے کشوں کے ساتھ مر کر بھی اپنی صحرا نوردی نہ مر سکی اُڑ اُڑ کے خاک جاتی رہی قافلوں کے ساتھ یہ کافری نہیں تو بتا کیا ہے کافری مایوسیاں خدا سے اُمیدیں بتوں کے ساتھ...
  2. زبیر صدیقی

    برائے اصلاح - عجب ہے

    السلام علیکم - ایک تازہ غزل کے ساتھ آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔ برائے مہربانی ایک نگاہ ہو۔ (اس غزل کا محرک ذرا سا سیاسی ہے، مجھے معلوم نہیں کہ اجازت ہے کہ نہیں، اس لیے نہیں دیا) الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل گریزاں روشنی سے ہو، عجب ہے سحر ہو گی تو سمجھو گے کہ شب ہے...
  3. بدر القادری

    برائے اصلاح

    اسّلام علیکم اساتذہ کرام اصلاحِ کلام کی درخواست ہے۔ دھیرےدھیرےسےچارہ گر کھینچے تیرِ جاناں نہ دل جگر کھینچے ہچکیاں باندھ کر سناوں اُنہیں طول رودادِ مختصر کھینچے نو گرفتار ہوں بتا ہے کوئی کس طرح آہِ پر اثر کھینچے جب مزہ ہےکہ تیرےوحشی کو لوگ کوچے میں در بدر کھینچے دور کیجے نہ آستانے سے شوقِ...
  4. زبیر صدیقی

    غزل برائے اصلاح - قدم

    السلام علیکم استذہ اور صاحبان۔ پہلے ایک مثبت خبر۔ جنوری میں، میں ٹخنے کی سرجری سے گزرا تھا۔ چلنے سے منع کیا ہوا تھا۔ اللہ کے فضل سے دو روز قبل دونوں پاؤں سے چلنا شروع کیا ہے۔ آپ لوگوں سے دعا کی درخواست ہے۔ ذہن میں ایک خیال تھا کہ اللّہ نے کیوں چلنے کی قدرت دوبارہ عطا کی؟ اسی سوچ میں یہ غزل کہی۔...
  5. Muhammad Ishfaq

    برائے اصلاح

    پانی پر حباب سی تیرا جو شباب سی میرا جو خیال تھا وہ تو اک سراب سی زندگی یوں گزری ہے جیسے احتساب سی وہ تو کوئی اور تھا یوں لگا جناب سی رات بھی اندھیری تھی رستہ بھی خراب سی اپنے کیوں خفا ہوئے میں کھلی کتاب سی فرش پر جو حبس ہے عرش پر سحاب سی
  6. زبیر صدیقی

    برائے اصلاح : دکھائی دے

    السلام علیکم صاحبان ؛ اساتذہ؛ ایک اور غزل کی جسارت کر رہا ہوں۔ ذرا راہنمائی فرمائیں۔ الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی ہر کچھ نہیں اچھا ہے جو اچھا دکھائی دے کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے میں تب کہوں گا "دیکھ رہا ہوں میں آئینہ" خامی بھی میری عکس کے ہمراہ دکھائی دے چہرے پہ چہرہ...
  7. بدر القادری

    برائے اصلاح

    اسّلام علیکم، حضرت شکیل بدایونی صاحب قادری کی ایک غزل سالوں قبل نظروں سے گزری تھی آج بھی زبان پر آجاتی ہے حسن مصروفِ رونمائی ہے کیا نگاہوں کی موت آئی ہے اِسی زمین پر کچھ خامہ فرسائی کر نے کی حماقت ہوگئی، ...یا جسارت، خیر جو کہئیے۔صحیح ہے یا غلط آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔ حسن مصروفِ خودنمائی...
  8. اویس رضا

    غزل بغرضِ اصلاح/ رند بے آبرو ہوجائیں گے میخانے میں

    استادِ محترم سر الف عین و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں نہیں ملتا کسی بستی کسی ویرانے میں سکوں ملتا ہے جو ساقی ترے میخانے میں چھوڑ کر جائیں اگر دل ترے کاشانے میں کیا ملے گا ہمیں کعبے میں صنم خانے میں چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں شہر کا شہر بدل دے گا وہ...
  9. Muhammad Ishfaq

    برائے اصلاح

    حمد باری تعالی ہر سو ہے تو اور یکتا ہے تو اور خالق ارض و سما ہے تو اور شان ہے بے پایاں تیری جو لائقِ حمد و ثنا ہے تو ظاہر میں تو ہے باطن میں تو ہر شے میں جلوہ نما ہے تو پایا ہے جس سے آنکھوں نے نور جس نے دی دل کو ضیا ہے تو چارہ گروں میں سب سے برتر اور سب مرضوں کی دوا ہے تو اندھیرے میں تو سویرے...
  10. زبیر صدیقی

    غزل برائے اصلاح - بدلا جا رہا ہے

    تمام صاحبان کی خدمت میں تسلیمات۔ ایک اور غزل پیشِ خدمت ہے۔ برائے مہربانی اپنی قیمتی آراء اور مشوروں سے احقر کو نوازیں۔ زمانہ رنگ بدلا جا رہا ہے فسانہ ڈھنگ بدلا جا رہا ہے میں تنگ ہو کر نہ بدلا تو بلآخر وہ ہو کر دنگ، بدلا جا رہا ہے خرد کے بعد، دھڑکن سے بغاوت یہ دل اب جنگ بدلا جا رہا ہے خدا...
  11. س

    غزل برائےاصلاح

    ان خنک ہواؤں کو کوئی جا کے بتا دے پتھر ہیں' ہواؤں کا قہر ہم نہیں لیتے یوں گردش دوراں نے مرمت کی ہماری اب وحشی اندھیروں سےسحر ہم نہیں لیتے معلوم نہیں لوگوں کو قیمتِ گریہ اک بوند کے بدلے میں بحر ہم نہیں لیتے جاں دیں گے بڑی شوق سے بر سرِمیداں احسان تلے دب کہ دھر ہم نہیں لیتے تسلیم...
  12. A

    غزل برائے اصلاح: ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے

    فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے دل لگی چُھپ کے بھی اقرار میں آ جاتی ہے داستاں اپنی بھی اک دن کہیں چھپ جائے گی اب تو ہر بات ہی اخبار میں آ جاتی ہے دُکھ کِسی شخص کا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا جان خود میری بھی آزار میں آ جاتی ہے بات تہذیب کی پگڈنڈیوں سے گزرے...
  13. A

    غزل برائے اصلاح: میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا

    مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا اک اور اپنا روز یوں سو کرچلا گیا جانے دُعا وہ کس کی تھی جو کام کرگئی اک حادثہ قریب سے ہو کرچلا گیا خوابوں کے گلشنوں میں ہیں کانٹے اُگے ہوئے یہ کیا تُو میری نیند میں بو کر چلا گیا! میری سُنی نہ ایک، بس اپنی کہے گیا ساتھی بھی درد...
Top