منظر سے پس منظر تک (نظم)
کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے...
انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا...
خالی ہاتھ
کل ترے جنم دن پر ، کتنے لوگ آئے تھے
کیسے کیسے تحفوں میں آس رکھ کے لائے تھے
زر نگار تحفوں سے چشم چشم خیرہ تھی
چار سو تصنُع تھا، ساری بزم خنداں تھی
اِ س نمودِ ثروت میں ، ایک نادر و نادار
خود سے بے پناہ نالاں، دل سے برسرِ پیکار
صرف تجھ سے ملنے کو ایسا بھی تو آیا تھا
جس کے زرد چہرے...
رشک بھرے دو سوال
کاسنی رنگ کا
وہ جو چھوٹا سا پھول اُس کے بالوں میں ہے
کن خیالوں میں ہے؟
اور آویزے جو
جھلملاتے ہوئے اُس کے کانوں میں ہیں
کن اُڑانوں میں ہیں؟
محمد احمدؔ
کچھ عرصے پہلے ایک تضمین "تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن" کے نام سے یہاں پیش کی تھی۔ اُس کے کچھ دنوں بعد اس شعر کا مصرعہ اولیٰ بھی مشقِ ستم کا نشانہ بن گیا سو شاملِ محفل کر رہا ہوں۔
وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"
محرومِ تماشا
از محمد احمد
شام ڈھل چکی تھی ۔ چائے کی ہوٹل پر حسبِ معمول رونق میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ لوگ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھےاور دن بھر کی تھکن کے مارے دکھتے بدن پر ذائقہ اور تراوت کے پھائے رکھ رہے تھے۔ یہ شہر کا ایک متوسط علاقہ تھا اور سندھ کے...
ٹھہرنا پڑے گا زمانے کو اک دن
خلاؤں کی بے نور آنکھوں میں آخر
یہ اڑتا ہوا کارواں منظروں کا
غبارِ تغیّر سے باہر نکل کر
رکے گا کبھی وادیء بے سفر میں
اتارے گا پیراہن ِ رنگ و بو کو
سنائے گا وہ نغمہء سرمدیّت
کہ جس کے شرارے زمان و مکاں میں
تڑپتے رہے لحنِ داؤد بن کر
رلاتے رہے چشمِ یعقوب بن کر
سناتے رہے...
غزل
مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے، کئی خواب میرے دروں بھی تھے
یہ جو روز و شب ہیں قرار میں، یہی پہلے وقفِ جنوں بھی تھے
مرا دل بھی تھا کبھی آئینہ، کسی جامِ جم سے بھی ماورا
یہ جو گردِ غم سے ہے بجھ گیا، اسی آئینے میں فسوں بھی تھے
یہ مقام یوں تو فغاں کا تھا، پہ ہنسے کہ طور جہاں کا تھا
تھا بہت کڑا...
غزل
سارے وعدے ، وعید ہو گئے ہیں
آہ ! محرومِ دید ہو گئے ہیں
زندگی کے کئی حسیں پہلو
نذرِ ذہنِ جدید ہو گئے ہیں
طعن و تشنیع کب سے ہیں معمول
کچھ رویّے شدید ہو گئے ہیں
مضمحل تھے ، مگر تجھے مل کر
اور بھی کچھ مزید ہو گئے ہیں
حُسن آراستہ، نہتّے ہم
ہونا کیا تھا شہید ہوگئے ہیں
ہم نے پڑھ لکھ...
محترم @محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی نذر:
کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"
:)
محمد احمدؔ
:) خاکسار کی ایک معصوم سی نظم شائقین اور خائفینِ پائتھون کے نام :)
اتنی محنت کون کرے
یوں تو دنیا ٹھیک ہے لیکن
اس کے کچھ انداز غلط ہیں :confused:
میری اپنی سوچ ہے بھیا :waiting:
اس کے "ہم آواز" غلط ہیں
لیکن "اِن" سے کون لڑے
اتنی محنت کون کرے
مانا لیلیٰ پیاری ہوگی (y)
سب کی راج...
غزل
زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے
میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے
ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی
جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے
دے گئی مستقل خلش دل کو
آرزو پائمال ہوتے ہوئے
لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں
زندگانی وبال ہوتے ہوئے
کس قدر اختلاف کرتا ہے
وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے
پئے الزام آ رُکیں مجھ پر
ساری...
منزل تمھاری ہے
(مرکزی خیال ماخوذ)
اگر تم دل گرفتہ ہو
کہ تم کو ہار جانا ہے
تو پھر تم ہار جاؤ گے
اگر خاطر شکستہ ہو
کہ تم کچھ کر نہیں سکتے
یقیناً کر نہ پاؤ گے
یقیں سے عاری ہو کر
منزلوں کی سمت چلنے سے
کبھی منزل نہیں ملتی
کبھی کنکر کے جتنے حوصلے والوں
سے بھاری سل نہیں ہلتی
زمانے میں ہمیشہ...
آپ سب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ محفل پر اژدھے سدھارنے والے سماج سیوک کے نائب مہتممِم پائیتھون نے اپنے آٹھ ہزار مراسلے مکمل کر لیے ہیں۔ان کو بہت بہت :congrats:ہو۔
پائیتھون کو پکڑنا سکھاتے ہوئے
ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے پڑھیے پائیتھون کہانی
غزل
مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت
واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت
میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو
حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت
کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو
کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت
آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں
دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت
اب...
اردو محفل
بہت سے غم تھے
بڑے الم تھے
میں ایسی دنیا میں تھا
کہ جس کا
حصار سارے جہاں میں پھیلا ہوا تھا لیکن
یہ ایسی دنیا تھی کہ جہاں پر
کوئی بھی سنتا نہیں تھا میری
یہاں کی بھاشا ہی اور کچھ تھی
یہاں میں لفظوں میں اپنے جذبے سمو نا چاہتا
تو ایسا لگتا کہ جیسے کوئی زمیں کی رنگت سے آسماں کی شبیہ...
غزل
تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے...