جون

  1. عبدالحسیب

    جون ایلیا کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی

    کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی کام ہی کیا وہی تلاش اپنی کوئی دم ایسی زندگی بھی کریں اپنا سینہ ہو اور خراش اپنی اپنے ہی تیشہ ندامت سے ذات ہے اب تو پاش پاش اپنی ہے لبوں پر نفس زنی کی دکاں یاوہ گوئی ہے بس معاش اپنی تیری صورت پہ ہوں نثار پہ اب اور صورت کوئی تراش اپنی جسم و جاں کوتو بیچ ہی ڈالا...
  2. فاتح

    جون ایلیا زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ۔ جون ایلیا

    زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات اللہ اور تمام بشر خیریت سے ہیں ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں اب فیصلوں کا کم...
  3. محمد بلال اعظم

    جانِ چمن رہو گے تم از علی زریون

    جانِ چمن رہو گے تم از علی زریون شاعرى ! انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت ترین سچ ! ایک ایسا سچ جس کی لہریں ،تقویم - محدود سے کہیں آگے تک رواں ہیں ..یہ وہ سچ ہے جس نے قدیم اور حادث کے معاملات بھی سلجھائے ،دروں اور بیرون کے فلسفے ہزار ہا شکلوں ،لہجوں اور طریقوں سے نمٹائے..یہ شاعرى ہی تھی ،جس نے...
  4. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا ناروا ہے سخن شکایت کا

    ناروا ہے سخن شکایت کا وہ نہیں تھا میری طبیعت کا دشت میں شہر ہو گئے آباد اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا وقت ہے اور کوئی کام نہیں بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا بس اگر تذکرہ کروں تو کروں کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا اپنے...
  5. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

    کل جون ایلیا کا ایک مشاعرہ سن رہا ہے، یہ غزل بہت پسند آئی اور تلاش کے باوجود بھی نہ ملی تو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔ اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں اور سب جس طرح بہلتے ہیں وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں کیا تکلف...
  6. فاتح

    جون ایلیا فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟ جون ایلیا

    یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں...
  7. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی

    جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی سو گئی ہوگی وہ شفق اندام سبز قندیل جل رہی ہوگی سرخ اور سبز وادیوںکی طرف وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر وہ تنے سے...
  8. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا جون ایلیا کے قطعات

    جون ایلیا کے قطعات جون ایلیا اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام اور ان کے قطعات اردو اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے قطعات سے میرا انتخاب آپ سب کی سماعتوں کی نذر: اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے ہوش میری خوشی کا دشمن ہےتو مجھے ہوش میں نہ آنے دے ------------------------- نشہ ناز نے...
  9. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

    تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہ دولت ہو میں ‌تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور اتنی ہی بے مرّوت ہو تم ہو پہلو میں ‌پر قرار نہیں یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی کیسے انگڑائی سے شکایت ہو کس طرح چھوڑ...
  10. محمداحمد

    جون ایلیا غزل - نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں - جون ایلیا

    غزل نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں...
  11. فاتح

    جون ایلیا خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے ۔ جون ایلیا

    خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے زمزمہ خواں گزر گئے، رقص کُناں گزر گئے وادیِ غم کے خوش خِرام، خوش نفَسانِ تلخ جام نغمہ زناں، نوا زناں، نعرہ زناں گزر گئے سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ صرصرِ بے اماں کے ساتھ دست فِشاں گزر گئے زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ عشرتیانِ رزقِ...
  12. محمداحمد

    جون ایلیا غزل ۔ ایک سایہ مرا مسیحا تھا ۔ جون ایلیا

    غزل ایک سایہ مرا مسیحا تھا کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی میں بھی حُجرے سے کم نکلتا تھا تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کے جو تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ وصل سے انتظار اچھا تھا بات تو دل شکن ہے پر، یارو! عقل سچی تھی، عشق جھوٹا تھا اپنے...
Top