اردو شاعری اردو غزل

  1. معاویہ وقاص

    عدم اٹھو ، سبو اٹھاؤ اٹھو ساز و جام لو - عبدالحمید عدم

    اٹھو ، سبو اٹھاؤ اٹھو ساز و جام لو دو دن کی زندگی ہے کوئی نیک کام لو یا تم بھی میرے ساتھ ہی گر جاؤ جھوم کر یا پھر مجھے بھی فرط محبت سے تھام لو یہ بھی سلام لینے کا ہے قاعدہ کوئی؟ آنکھیں ملاؤ ہاتھ بڑھا کر سلام لو آتی ہے لوٹ کر کہاں عمر گریز پا اس خانماں خراب سے خوب انتقام لو کیوں چپ کھڑے ہو حشر...
  2. معاویہ وقاص

    عدم میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے - عبد الحمید عدم

    میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے ظالم قریب آ کے کسی دن صدا تو دے اتنی تو قدر کر میرے حال خراب کی تفریح کے لیے ہی ذرا مسکرا تو دے یہ اور بات ہے کہ محبت نہیں تجھے تا ہم ستم ظریف محبت جتا تو دے دکھتے ہوے مزاج کی تالیف کے لیے جلتے ہوے حواس میں ٹھنڈک بسا تو دے شاید کمی ذرا سی اندھیروں...
  3. معاویہ وقاص

    عدم وہ روشنی ، وہ رنگ ، وہ حدّت ، وہ آب لا - عبدالحمید عدم

    وہ روشنی ، وہ رنگ ، وہ حدّت ، وہ آب لا ساقی طلوع ہوتا ہوا آفتاب لا زلفوں کے جال ہوں کہ بھنوؤں کے ہلال ہوں اچھی سی چیز کر کے کوئی انتخاب لا ساقی کوئی بھڑکتی ہوئی سی شراب دے مطرب کوئی تڑپتا ہوا سا رباب لا ہلکی سی بے حسی بھی بہاروں کی موت ہے تھوڑی سی دیر بھی نہیں واجب ، شراب لا ساقی عدم نے...
  4. معاویہ وقاص

    عدم کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

    کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نہ خدا کے ساتھ کہتے ہیں جس کو حشر ، اگر ہے ، تو لازماً اٹھے گا وہ بھی آپ کی آواز پا کے ساتھ اے قلب نامراد مرا مشورہ یہ ہے اک دن تو آپ خود بھی چلا جا دعا کے ساتھ پھیلی ہے جب سے خضر و سکندر کی داستاں ہر با وفا کا ربط ہے اک بے وفا کے...
  5. معاویہ وقاص

    عدم دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات

    دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات ایسی ہے جیسے موسم گل میں خزاں کی بات اچھا! وہ باغ خلد جہاں رہ چکے ہیں ہم ہم سے ہی کر رہا ہے تو زاہد وہاں کی بات زاہد ترا کلام بھی ہے با اثر مگر پیر مغاں کی بات ہے پیر مغاں کی بات اک زخم تھا کہ وقت کے ہاتھوں سے بھر گیا کیا پوچھتے ہیں آپ کسی مہرباں کی بات ہر...
  6. معاویہ وقاص

    عدم میں حادثوں سے جام لڑاتا چلا گیا

    میں حادثوں سے جام لڑاتا چلا گیا ہنستا ہنساتا ،پیتا پلاتا ، چلا گیا نقش و نگار زیست بنانے کا شوق تھا نقش و نگار زیست بناتا چلا گیا اتنے ہی اختلاف ابھرتے چلے گئے جتنے تعلقات بڑھاتا چلا گیا طوفاں کے رحم پر تھی فقیروں کی کشتیاں طوفاں ہی کشتیوں کو چلاتا چلا گیا دنیا مری خوشی کو بہت گھورتی...
  7. معاویہ وقاص

    عدم دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر

    دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر میں غور کر رہا ہوں کسی اور بات پر دیکھا ہے مسکرا کے جو اس مہ جبیں نے جوبن سا آگیا ہے ذرا واقعات پر دیتے ہیں حکم خود ہی مجھے بولنے کا آپ پھر ٹوکتے ہیں آپ مجھے بات بات پر میں جانتا تھا تم بڑے سفاک ہو مگر انسان کو اختیار نہیں حادثات پر جینا ہے چار روز تو...
  8. معاویہ وقاص

    عدم مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے

    مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے حرم کا عزم پنپتا نظر نہیں اتا کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے فقیہ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے تو نیک بخت گلے میرے آن پڑتا ہے ہمیں خبر ہے حصول مراد سے پہلے خراب ہونا بھی اے مہربان پڑتا ہے عدم نشیمن دل بدگمان نہ ہوجاے...
  9. معاویہ وقاص

    عدم یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے

    یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے اس کے نشان پا مری جاں تک پہنچ گئے آخر ہمارے عجز نے پگھلا دیا انہیں انکار کرتے کرتے وہ ہاں تک پہنچ گئے گو راہ میں خدا نے بھی روکا کئی جگہ ہم پھر بھی اس حسیں کے مکاں تک پہنچ گئے ہم چلتے چلتے راہ حرم پر خدا خبر کس راستے سے کوئے مغاں تک پہنچ گئے ان کی نظر اٹھی نہ...
  10. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جب کبھی خواب کی اُمید بندھا کرتی ہے ۔ جمال احسانی

    غزل جب کبھی خواب کی اُمید بندھا کرتی ہے نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے دیکھ بے چارگیء کوئے محبت کوئی دم سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے صورتِ دل بڑے شہروں میں رہِ یک طرفہ جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی...
  11. ظ

    افتخار عارف سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی ( افتخار عارف )

    سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی سرِشام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی مرے...
  12. محمداحمد

    غزل ۔ یہ بھی نہیں رہیں گے جو وہ دن نہیں رہے ۔ انجم خلیق

    غزل یہ بھی نہیں رہیں گے جو وہ دن نہیں رہے کچھ لوگ اپنے ظلم مگر گن نہیں رہے سوچوں کی دھوپ ، خون کی حدت، نظر کی تاب اعزاز کیسے کیسے یہاں چھن نہیں رہے ہاں ہم سیاہ رتوں میں سحر کے نقیب تھے اب ہم بھی اس مزاج کے لیکن نہیں رہے عریاں کیا ہے حرص کی خلعت نے یوں ہمیں تن کیا ضمیر ڈھانپنے...
  13. کاشفی

    تیری خاموش نگاہوں میں گلہ ہے تو سہی - اسماعیل اعجاز (خیال)

    غزل اسماعیل اعجاز (خیال) - کراچی پاکستان تیری خاموش نگاہوں میں گلہ ہے تو سہی سلسلہ پھر بھی تیرے ساتھ جُڑا ہے تو سہی تجھ سے ہی روٹھنا، اور تجھ کو مناتے رہنا "ایک اُلجھا ہُوا ہاتھوں میں سِرا ہے تو سہی" اپنی ہر بات کو منسوب تجھی سے کرنا دل میں‌جلتا ہُوا چاہت کا دِیا ہے تو سہی جس کو...
Top