نتائج تلاش

  1. محسن اعوان

    اس نثری غزل کی اصلاح فرمائیں

    کسی کا دل توڑ کر کسی کو دل میں بسا لینا کسی کی آنکھیں نم کرنا کسی کے آنسو پونچھنا سنو! محبت ایسے نہیں ہوتی حالات کے نازک لمحوں میں کسی کو الوداع کہنا کسی کے حال پہ ہنسنا کسی کے حال پہ رونا سنو! محبت ایسے نہیں ہوتی کسی کو دردِ ہجر دینا کسی کو وصل عطا کرنا کسی کو پانے کی خواہش میں کسی کو یوں ہی رد...
  2. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    تھا مسرور کتنا جنابوں سے پہلے جدائی کے قاتل عذابوں سے پہلے تھی رنگین کتنی مری زندگانی محبت کے بے رنگ خوابوں سے پہلے مری چشم میں نور ہی کا تھا ڈیرا جدائی کے ٹسوں کی قابوں سے پہلے بہت پر کشش تھیں وہ آنکھیں نہ پوچھو نظر آتی تھیں وہ نقابوں سے پہلے محبت سے یا رب بہت مر گئے نا نجس کر اِسے تُو...
  3. محسن اعوان

    اس مطلع کی اصلاح فرمائیں

    ٹوٹی ہوئی سڑک اور پیدل سا آدمی ہے جا رہا کہاں یہ پاگل سا آدمی
  4. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    محبت بزدلوں پر دل کی گہرائیوں سے ہنستی ہے ملے جو جان کے بدلے تو قیمت پھر بھی سستی ہے محبت بے نیازی ہے وفاؤں کی توقع سے یہ خود ہے کان ہیروں کی یہی سونے کی بستی ہے محبت کی عطا کو وقت کے میعار کیا جانیں کہ جس کے ایک لمحے کو سبھی دنیا ترستی ہے محبت میں جفا کے تازیانے بھی محبت ہیں کہ پوچھو سورماؤں سے...
  5. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    ہوا دل لگی کا کیا فائدہ یکایک وہ مجھ سے ہوئی ہے جُدا کہاں کس جگہ اُس کو ڈھونڈا نہیں مرے شہر کی یہ ہوا ہے گواہ میں راہِ محبت پہ چلتے ہوئے گِرا اپنی ہی نظروں سے باخدا یہ کہتے ہوئے اُس نے چھوڑا تھا بس تُو ٹھہرا اِک ادنیٰ ، میں ہوں فائقہ
  6. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    آنچل میں مُسکرانا کہیں قتل کر نہ دے انداز یہ سہانا کہیں قتل کر نہ دے اکثر ترے خیال میں سب بُھول جاتا ہوں یوں اتنا یاد آنا کہیں قتل کر نہ دے کتنی بے اعتنائی سے تم آتے جاتے ہو بس ایسے آنا جانا کہیں قتل کر نہ دے اُس قُرب سے ترے میں نکل آیا ہوں مگر اب ہجر کا ٹھکانہ کہیں قتل کر نہ دے دنیا کی...
  7. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    میں ابھی تک تری اُمید رکھے ہوں اِن اندھیروں میں بھی خورشید رکھے ہوں مجھ کو معلوم ہے تُو کر چکا ہجرت میں مگر پھر بھی آسِ دید رکھے ہوں ہجر جچتا نہیں ہے چہرے پر یارا اِس لیے دل ہی میں تشدید رکھے ہوں چاند نکلا اُدھر اُس آسماں پر ہے میں اِدھر اِس زمیں پر عید رکھے ہوں
  8. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    ہوئے آدمی یہ پیدا تو انسان مر گئے جو تھے جان سے پیارے مری جان مر گئے مجھے تب سمِ بشر سے بہت خوف آیا تھا کہ جب آدمی کے ڈسنے سے حیوان مر گئے تجھے دیکھتے ہی دل یہ مرا صاف ہو گیا مرے ذہن کے بڑے بڑے شیطان مر گئے تُو نے آ کے مجھ کو اپنے گلے سے لگایا جب جہاں کے تو خود پہ سارے ہی ابھمان مر گئے مجھے...
  9. محسن اعوان

    اس نظم کی اصلاح فرمائیں

    تم نے ایسا کیوں کہا مرد سب ہیں بے وفا لیلیٰ پر جو مر گیا پھر وہ مجنوں کون تھا تم نے ایسا کیوں کہا عورتیں ہیں با وفا عیسٰیؑ نے جو زندہ کی سوچ اُس زن کو ذرا مجھ کو چاہت مت سکھا اپنے بارے میں بتا تم نے جو دھوکہ دیا اس کا بھی کچھ ہو گا کیا بحث میں اب ہار جا بات میری مان جا تم نے مجھ کو جو کہا سب کا...
  10. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    اب عاشقی میں کوئی طہارت نہیں رہی پہلے کی طرح اب تو محبت نہیں رہی ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی تنہا ہی کٹ گئی یہ خفا زندگی مری اِس راہ میں کسی کی رفاقت نہیں رہی اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی جانے ترے جمال کو کیسے لگی نظر...
  11. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    بس خاک چھانوں یا جہاں تمام ڈھونڈ لوں قسمت نہیں مری کہ در و بام ڈھونڈ لوں یہ نام بس تمہارا مرے ساتھ ہی رہے اِک چاہ ہے تمہارا میں ہمنام ڈھونڈ لوں معلوم ہے کہ جوڑیاں فطرت پہ بنتی ہیں بدنام ہوں سو کوئی میں بدنام ڈھونڈ لوں وہ جس میں دستیاب ہو بس تھوڑا سا سکون کوئی سویرا ایسا ، کوئی شام ڈھونڈ لوں...
  12. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    بس خاک چھانوں یا جہاں تمام ڈھونڈ لوں قسمت نہیں مری کہ در و بام ڈھونڈ لوں یہ نام بس تمہارا مرے ساتھ ہی رہے اِک چاہ ہے تمہارا میں ہمنام ڈھونڈ لوں معلوم ہے کہ جوڑیاں فطرت پہ بنتی ہیں بدنام ہوں سو کوئی میں بدنام ڈھونڈ لوں وہ جس میں دستیاب ہو بس تھوڑا سا سکون کوئی سویرا ایسا ، کوئی شام ڈھونڈ لوں...
  13. محسن اعوان

    اس غزل کی اصلاح فرمائیں

    مجھے معلوم تھا اِک دن شرارت کر ہی بیٹھے گا محبت کی امانت میں خیانت کر ہی بیٹھے گا میں اُس کی بے وفائی کو اگر ثابت بھی کر دوں تو زمانے سے کوئی اُس کی ضمانت کر ہی بیٹھے گا مرے دل کے شکاری نے یہی آغاز میں سوچا کہ آئے گا شکنجے میں محبت کر ہی بیٹھے گا زمانے سے میں ایسے ہی شکایت بس نہیں کرتا سُنے...
Top