اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محسن اعوان

محفلین
تھا مسرور کتنا جنابوں سے پہلے
جدائی کے قاتل عذابوں سے پہلے

تھی رنگین کتنی مری زندگانی
محبت کے بے رنگ خوابوں سے پہلے

مری چشم میں نور ہی کا تھا ڈیرا
جدائی کے ٹسوں کی قابوں سے پہلے

بہت پر کشش تھیں وہ آنکھیں نہ پوچھو
نظر آتی تھیں وہ نقابوں سے پہلے

محبت سے یا رب بہت مر گئے نا
نجس کر اِسے تُو شرابوں سے پہلے

میں اُن عارضوں کو جی کیسے بھلاؤں
میں نے چُوما جن کو گلابوں سے پہلے
 

الف عین

لائبریرین
تھا مسرور کتنا جنابوں سے پہلے
جدائی کے قاتل عذابوں سے پہلے
.. سمجھ نہیں سکا، جنابوں؟

تھی رنگین کتنی مری زندگانی
محبت کے بے رنگ خوابوں سے پہلے
... درست

مری چشم میں نور ہی کا تھا ڈیرا
جدائی کے ٹسوں کی قابوں سے پہلے
.. پہلے مصرع میں ت آفر دور کیا جا سکتا ہے اور روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے
میری آنکھ میں نور کا تھا بسیرا
یا
مری آنکھ میں روشنی کا تھا ڈیرا
لیکن دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا، جو بحر سے خارج بھی ہے

بہت پر کشش تھیں وہ آنکھیں نہ پوچھو
نظر آتی تھیں وہ نقابوں سے پہلے
... نقابوں سے پہلے آنکھیں نظر آتی تھیں!

محبت سے یا رب بہت مر گئے نا
نجس کر اِسے تُو شرابوں سے پہلے
... یہ بھی سمجھ نہیں سکا

میں اُن عارضوں کو جی کیسے بھلاؤں
میں نے چُوما جن کو گلابوں سے پہلے
.. جی لفظ تو صریح بھرتی کا ہے،
میں نے کو 'منے' نہیں بنایا جا سکتا ہے
گلابوں سے پہلے محبوب کے گالوں( اگرچہ عارضوں سے 'عارضہ' کی جمع کا مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے) کو چومنے سے نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا تو بیاں کرو
 
آخری تدوین:
Top