اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محسن اعوان

محفلین
محبت بزدلوں پر دل کی گہرائیوں سے ہنستی ہے
ملے جو جان کے بدلے تو قیمت پھر بھی سستی ہے
محبت بے نیازی ہے وفاؤں کی توقع سے
یہ خود ہے کان ہیروں کی یہی سونے کی بستی ہے
محبت کی عطا کو وقت کے میعار کیا جانیں
کہ جس کے ایک لمحے کو سبھی دنیا ترستی ہے
محبت میں جفا کے تازیانے بھی محبت ہیں
کہ پوچھو سورماؤں سے تو یہ رحمت برستی ہے
محبت وہ مری محبوبۂ طنّاز ہے یاسر
کمر طوفان ڈھانے کو ہمیشہ ہی جو کستی ہے
 
محبت بزدلوں پر دل کی گہرائیوں سے ہنستی ہے
ملے جو جان کے بدلے تو قیمت پھر بھی سستی ہے
پہلے مصرعے میں گہرائیوں میں ہمزہ ادا نہیں ہو رہا، جو میرے خیال میں ٹھیک نہیں.
دوسرے مصرعے میں بیان خلاف محاورہ ہے. کوئی بھی شے بذات خود مہنگی یا سستی ہو سکتی ہے، قیمت کم یا زیادہ ہوتی ہے ... اس لیے قیمت سستی ہونا کہنا ٹھیک نہیں.

محبت بے نیازی ہے وفاؤں کی توقع سے
یہ خود ہے کان ہیروں کی یہی سونے کی بستی ہے
پہلے مصرعے میں آپ غالبا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ محبت وفا کی توقع سے بے نیاز ہونے کا نام ہے؟ اگر ایسا ہے تو تعقید کے سبب درست مفہوم کا ابلاغ مشکل ہو رہا ہے.
سونے کی بستی کیا ہوتی ہے؟ میرے خیال میں تو اس سے سونے کے ذخیرے کا مفہوم ادا نہیں ہوتا.

محبت کی عطا کو وقت کے میعار کیا جانیں
کہ جس کے ایک لمحے کو سبھی دنیا ترستی
مفہوم واضح نہیں ہو سکا.

محبت میں جفا کے تازیانے بھی محبت ہیں
کہ پوچھو سورماؤں سے تو یہ رحمت برستی ہے
یہاں بھی دونوں مصرعوں کا ربط واضح نہیں.

محبت وہ مری محبوبۂ طنّاز ہے یاسر
کمر طوفان ڈھانے کو ہمیشہ ہی جو کستی ہے
طوفان ڈھانا خلاف محاورہ ہے، طوفان اٹھایا جاتا ہے
کمر طوفاں اٹھانے کو ...
 
Top