نتائج تلاش

  1. حذیفہ انصاری

    راہِ ہوس کو اور بھی ہموار مت کرو :: عبدالسلام اظہر

    راہِ ہوس کو اور بھی ہموار مت کرو نادانو ! شاہزادے کو بیدار مت کرو یہ کہہ رہے ہیں دھوپ کے سفّاك زاویے اب اعتبارِ سایہء أشجار مت کرو اك حملہ فتح یاب کرے گا ہمیں مگر میرِ سپہ کا حکم ہے یلغار مت کرو شب زادو! آؤ سامنے روشن چراغ کے چھپ کر منافقوں کی طرح وار مت کرو درّانہ شور کرتی ہوئی آئیں...
  2. حذیفہ انصاری

    ہوں پارسا تیرے پہلو میں شب گزار کے بھی :: سلیم صدیقی

    ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی ہر ایک سر کو بلندی عطا نہیں کرتے اصول ہوتے ہیں کچھ تو صلیب و دار کے بھی ہمارے عکس بھی دھندلے ہوئے تو ہم سمجھے کہ آئینوں سے ہیں رشتے یہاں غبار کے بھی نہ آبلوں سے ہے رغبت نہ پاؤں سے...
  3. حذیفہ انصاری

    راحت اندوری کبھی اکیلے میں مل کر جھنجوڑ دوں گا اسے ::راحت اندوری

    کبھی اکیلے میں مل کر جھنجوڑ دونگا اُسے جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے مجھے ہی چھوڑ گیا یہ کمال ہے اُس کا ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے پسینہ بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دونگا اُسے مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ...
  4. حذیفہ انصاری

    میری صدی کے لوگ::محمد اقبال بیلن نظام آبادی

    دنداں شکن جواب ہیں میری صدی کے لوگ دنگل کی ایک کتاب ہیں میری صدی کے لوگ ڈسکو فقیر لیتے ہیں خیرات میں جہیز کیا صاحب عذاب ہیں میری صدی کے لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں روز روز ٹکنی کلر سراب ہیں میری صدی کے لوگ حاجت نہیں ہے ووٹوں کی ایسے ہیں باکمال آپ اپنا انتخاب ہیں میری صدی کے لوگ ہر...
  5. حذیفہ انصاری

    تُم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے

    تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے باہم تھا اتحاد ابھی کل کی بات ہے منزل تھی ایک جس پہ بہم گامزن رہے بالکل نہ تھا تضاد ابھی کل کی بات ہے اک روشنی تھی دل میں بہت پاک و صاف تھے ایسا نہ تھا عِناد ابھی کل کی بات ہے بنیاد خود ہی آپ نے رکھی نفاق کی شیر و شکر تھے شاد ابھی کل کی بات ہے صحنِ چمن میں...
  6. حذیفہ انصاری

    چمکتے خوابوں کی بستی بسانے والی ہے ::عبدالسلام اظہر

    چمکتے خوابوں کی بستی بسانے والی ہے ہوا جو تیرے جھروکے سے آنے والی ہے بجھائے جاتی ہے اک ايک کرکے سارے دیے یہ رات پھر کوئی طوفاں اٹھانے والی ہے کنارے رہنے دو قانون کی کتابوں کو کہ شاہزادی عدالت میں آنے والی ہے کبھی تو لگتا ہے یہ قوم یوں ہی سوتے ہوئے تباہی اپنا مقدّر بنانے والی ہے مرے جوانوں...
  7. حذیفہ انصاری

    کچھ تو بتا اے دھوپ کی یلغار کیا ہوئے :: عبدالسلام اظہر

    کچھ تو بتا اے دھوپ کی یلغار کیا ہوئے تھی جن کی ذات سایہ ٔ اشجار کیا ہوئے ٹھوکر میں جن کی رہتی تھیں جابر حکومتیں وہ صاحبان جبہ و دستار کیا ہوئے جو پاس دار عظمت نانِ جویں کے تھے تھے خاک جن کو درہم و دینار کیا ہوئے جن کے نقوش پا پہ بہاریں کریں قیام وہ تارکین سبزہ و گلزار کیا ہوئے جن کا وجود...
  8. حذیفہ انصاری

    خزانہ آنکھوں کا ایسے کہیں لٹا ہی نہیں

    خزانہ آنکھوں کا ایسے کہیں لٹا ہی نہیں کوئی بھی شخص یہاں خواب دیکھتا ہی نہیں مرا قبیلہ سپاہی نہیں مجاہد ہے کسی بھی حال میں تلوار بیچتا ہی نہیں پڑی ہے فکر خلاؤں میں رنگ بھرنے کی زمیں کا قرض ابھی تک ادا ہوا ہی نہیں مرے وجود نے خوش فہمی خاک کرڈالی وہ مطمئن تھے کہ بستی میں آئینہ ہی نہیں...
  9. حذیفہ انصاری

    بہاروں کے پیمان بدلے گئے ہیں از نشاط شاہدوی

    بہاروں کے پیمان بدلے گئے ہیں جنوں کے گریبان بدلے گئے ہیں دکها کر لہکتے ہوئے سبز باغ طبیعت کے رجحان بدلے گئے ہیں عناصر میں پا کر نمودِ حیات مشیت کے فرمان بدلے گئے ہیں نظر دشنہء آستیں بن گئی ہے کہانی کے عنوان بدلے گئے ہیں جبینیں جهکا کر چلے تیشہ زن کہ محلوں کے دربان بدلے گئے ہیں حنا بندیاں...
  10. حذیفہ انصاری

    ویران مسجد ( نشاط شاہدوی)

    ویران مسجد اے مرے ملحد ہمزاد تجھے لے جاؤں ایک ویران سی مسجد میں جہاں کوئی نہیں اپنے اجداد کی روحوں نے یہاں بوئے ہیں ہچکیاں، نالے، پریشان دعا، اشک حزیں فرش سے چمٹے ہوئے زہد کے سجدوں کے نقوش خاک سے منبر و محراب کے شانے بوجھل کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کی فضا میں لرزش غیر مرئی سی تصاویر نظر سے اوجھل...
  11. حذیفہ انصاری

    حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو (مبشر سعید)

    حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو اب...
  12. حذیفہ انصاری

    زندگی کے موڑ پر

    سفید ماتهے پہ لاکھوں گهلے ہوئے مہتاب دراز پلکوں پہ رعنائیوں کے ڈیرے تھے ملیح رخ پہ جوانی کی نرم ہلکی دهوپ لبوں کی اوٹ میں چونکے ہوئے سویرے تھے سیاہ مانگ میں سندور کی حسین شفق حنا کے رنگ سے ہاتھوں پہ دیپ جلتے تھے کٹیلی آنکھوں میں سوتا تھا رس بهرا کاجل صباحتوں میں ڈهلے کارواں نکلتے تھے یہ...
  13. حذیفہ انصاری

    شراب کی میز پر::از:نشاط شاہدوی

    شراب کی میز پر ہائے کیا دور تھا تاجدارِ فرنگ سالہا سال ہم تم رہے یار غار اور تم اس زمینِ سیاہ فام پر نیلی آنکھوں کا افسوں بکهیرا کئے ذرہ ذرہ سے امرت نچوڑا کئے لوٹ کے ہاتھ باہم بٹاتے رہے ہائے کیا دور تھا زندگی شادماں،روح شاداب تھی چین سے بیٹھ کر رات کی چھاؤں میں آبگینوں میں ڈهالا کئے چاندنی...
Top