شراب کی میز پر::از:نشاط شاہدوی

شراب کی میز پر

ہائے کیا دور تھا تاجدارِ فرنگ
سالہا سال ہم تم رہے یار غار
اور تم اس زمینِ سیاہ فام پر
نیلی آنکھوں کا افسوں بکهیرا کئے
ذرہ ذرہ سے امرت نچوڑا کئے
لوٹ کے ہاتھ باہم بٹاتے رہے


ہائے کیا دور تھا
زندگی شادماں،روح شاداب تھی
چین سے بیٹھ کر رات کی چھاؤں میں
آبگینوں میں ڈهالا کئے چاندنی
آرزوؤں کی بجتی رہی راگنی
خاکِ مشرق میں بکهرے ہوئے آفتاب
وادئ غرب میں ڈوبنے کے لیے
ہم اچهالا کئے
تم نے زرکار کرنوں سے بن بن کے بهیجے اندھیروں کے جال
اور ہم اس دیارِ حسیں پر بچهاتے رہے
کلبلائے اگر بستروں پر عوام
توپیں غرا اٹهیں
خوں میں لت پت جبیں، دست و بازو لیے
اونچے دربار میں ہم پہنچتے رہے
چوم لیں تم نے پیشانیاں
شوخ و گلرنگ بوسے نچهاور کئے
خلعتِ بے بہا سے نوازا ہمیں
ہائے کیا دور تها تاجدارِ فرنگ


اور پھر انقلاب آگیا
امن کی چهاوں میں انقلاب آگیا
رہبرِ سادہ لوح
خوش ہے اپنی سیاست کے اعجاز پر
ملک آزاد ہے، ہم بهی آزاد ہیں
آج ہم نے وہ منظر دکها ہی دیا
آج انسانیت خودکشی کر چکی
آدمی آدمی سے ہراساں ہیں سینوں میں طوفاں لیے
موت اوڑهے ہوئے ظلمتوں کی نقاب
شاہراہوں پہ کوچوں میں بازار میں
چاٹتی پهر رہی ہے درخشاں لہو


کچھ اندهیرے مگر اب بهی بے چین ہیں
روشنی دیکھ کر سرد تہہ خانوں سے یہ نکل آئے ہیں
ہم کو ڈسنے کی خاطر ابل آئے ہیں
سر پٹکنے دو ان کو در و بام پر
بند رکھو دریچے دیے گل کرو
ہاں! مگر ایک جام
اپنے آباء و اجداد کے نام کا
آشتی امن و تہذیب کے نام کی
فکرِ فردا عبث ہے، عبث ہے، عبث

نشاط شاہدوی
 
Top