کچھ تو بتا اے دھوپ کی یلغار کیا ہوئے :: عبدالسلام اظہر

کچھ تو بتا اے دھوپ کی یلغار کیا ہوئے
تھی جن کی ذات سایہ ٔ اشجار کیا ہوئے

ٹھوکر میں جن کی رہتی تھیں جابر حکومتیں
وہ صاحبان جبہ و دستار کیا ہوئے

جو پاس دار عظمت نانِ جویں کے تھے
تھے خاک جن کو درہم و دینار کیا ہوئے

جن کے نقوش پا پہ بہاریں کریں قیام
وہ تارکین سبزہ و گلزار کیا ہوئے

جن کا وجود مرہمِ زخم حیات تھا
دستِ شفیق اور لبِ گلبار کیا ہوئے

وہ صاحبانِ صدق و یقیں مہر نیم شب
تاریکیوں میں تھے جو ضیا بار کیا ہوئے

اربابِ داروگیر کی سختی کے باوجود
طاغوت کے لئے تھے جو تلوار کیا ہوئے

حجرے کو اپنے چھوڑ کے سیلابِ ظلم میں
بن جاتے تھے جو آہنی دیوار کیا ہوئے

تاریکیوں کے سائے لپکنے سے پیش تر
کرتے تھے جو ضمیر کو بیدار کیا ہوئے

اظہرؔ تھے جن کی ذات کے دشمن بھی معترف
وہ صاف گو، وہ صاحب کردار کیا ہوئے

عبدالسلام اظہر
 
Top