بہاروں کے پیمان بدلے گئے ہیں از نشاط شاہدوی

بہاروں کے پیمان بدلے گئے ہیں
جنوں کے گریبان بدلے گئے ہیں

دکها کر لہکتے ہوئے سبز باغ
طبیعت کے رجحان بدلے گئے ہیں

عناصر میں پا کر نمودِ حیات
مشیت کے فرمان بدلے گئے ہیں

نظر دشنہء آستیں بن گئی ہے
کہانی کے عنوان بدلے گئے ہیں

جبینیں جهکا کر چلے تیشہ زن
کہ محلوں کے دربان بدلے گئے ہیں

حنا بندیاں ہیں مرے خون سے
تشدّد کے میدان بدلے گئے ہیں

نئی منزلیں ہیں نئے راہ رو
پرانے حدی خوان بدلے گئے ہیں

نشاط شاہدوی
 
Top