زندگی کے موڑ پر

سفید ماتهے پہ لاکھوں گهلے ہوئے مہتاب
دراز پلکوں پہ رعنائیوں کے ڈیرے تھے
ملیح رخ پہ جوانی کی نرم ہلکی دهوپ
لبوں کی اوٹ میں چونکے ہوئے سویرے تھے

سیاہ مانگ میں سندور کی حسین شفق
حنا کے رنگ سے ہاتھوں پہ دیپ جلتے تھے
کٹیلی آنکھوں میں سوتا تھا رس بهرا کاجل
صباحتوں میں ڈهلے کارواں نکلتے تھے

یہ آج کیسی ہے چہرے پہ گرد محرومی
فسردہ گالوں پہ نہ رنگ ہے نہ غازہ ہے
لٹی بہار کی پرچهائیاں ہیں آنکھوں میں
حیا کے دوش پہ امید کا جنازہ ہے

تجهے قسم ہے مری حسرتوں کا رنج نہ کر
کسی طرح یہ جوانی گزر ہی جائے گی
یہ روز و شب کی چٹانیں یہ ماہ و سال کا بوجھ
کبهی تو سر کی گرانی اتر ہی جائے گی

زمینِ تیرہ کی پهیلی ہوئی ہتهیلی پر
ہزاروں راستے کچھ دور مل بهی جاتے ہیں
کبھی کبھی غم ہستی پہ مسکرانے کو
مسرتوں کے کنول، تازہ کهل بهی جاتے ہیں

تری اداس نگاہوں کی گرد بار تهکن
مری حیات کی افسردگی نہ بن جائے
ترا سکوت تری خلوتوں کی چھاؤں سہی
یہی سکوت مری زندگی نہ بن جائے

نشاط شاہدوی
 
Top