غزل
امین شیخ
خاک اُس حُسن پہ جو بستۂ پندار نہیں
وہ بھی کیا صحن ہے جس صحن کی دیوار نہیں
مُفلسی ہے کہ مُجھے کوڑھ نِکل آیا ہے
میرے احباب مُجھے مِلنے کو تیار نہیں
دوست اُس شاخِ بُرِیدہ کی طرح ہیں جس پر
ثمر آنا تو کُجا بُور کے آثار نہیں
سائے میں پھینکا ہے جس نے، مِرا دُشمن ہوگا
یہ طرح...
شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ابن انشا
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گِلے شِکوے بھی کر لیتے مُناجاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
فیض احمد فیض
بِکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مِرے معبُود آخر کب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کِردار شامِل ہو گئے ہیں
نہیں معلوُم اب کِس ڈھب تماشا ختم ہوگا
افتخار عارف
اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو
دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اُس یوسفِ بے درد کا اعجاز تو دیکھو
جنّت میں بھی مومن نہ مِلا ہائے بتوں سے
جورِ اجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو
مومن خان مومن
قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی
نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی
کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ
یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی
عرفان صدیقی
تھی مُختصرسی محبت کی زندگی اتنی !
لگے کہ جیسے کِسی پل، کِسی شرر میں رہے
کِسے بھی پیار ومحبت کا کچُھ نہیں تھا دماغ !
سب اجنبی کی طرح ہی رہے، جوگھرمیں رہے
شفیق خلش
تمام عمر عذابوں کے ہم اثر میں رہے
نہ ذِکر میں رہے کِس کے نہ ہی نظر میں رہے
زبان رکھتے ہوئے اُن سے مُدّعا نہ کہا
ملال اِس کا ہمارے دل و جگر میں رہے
شفیق خلش