(١٠٣)
جہاں جہاں وہ چُھپے ہیں عجیب عالم ہے
وہ سامنے ہیں، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں ہے سکّت، نہ عشق میں دم ہے
زمیں سے تا بہ فلک کچھ عجیب عالم ہے
یہ جذبِ مہر ہے یا آبروئے شبنم ہے
بہارِ جلوۂ رنگِیں کا اب یہ عالم ہیں
نظر کے سامنے حُسنِ نظر مجسّم ہے
نِگاہِ عِشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اُسے...