غزل 
 
دیکھ ریگ ِ رواں سے اُٹھتا ہے؟
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
 
احتجاجا َ حضور ِ مہ و گُل
یہ خرد آستاں سے اُٹھتا ہے
 
کرمَک و شمع کو میں جب دیکھوں
تو یقیں مہوشاں سے اُٹھتا ہے
 
قوت ِ بازو کچھ نہیں صاحب
بار تو بس زیاں سے اُٹھتا ہے
 
صبح ہو گی تو دیکھ لیں گے ہم
کہ دھواں کس مکاں سے اُٹھتا ہے...