بات دل کی جناب کیا جانیں
آپ سے کچھ خراب کیا جانیں
پی ہے کب چشم ناز سے ان نے
شیخ صاحب شراب کیا جانیں
ان حقیقت شناس لوگوں کے
دل بهلا میرے خواب کیا جانیں
بات کرتے ہیں تول تال کے آپ
یہ چلن بد حساب کیا جانیں
جن کو تکنا ہو یار کا چہرہ
دیکھ رکهیں حجاب کیا جانیں
ہم کہاں محفلوں میں پهرتے ہیں
ایسی...
یہ بچی انڈین موویز تو نہیں دیکهتی - اسے سمجهانا چاہئے بیٹا اب بتوں کو پوجنے والی بات پرانی ہو چکی - اب تو مارکیٹ میں طرح طرح کا شرک آ چکا ہے - اللہ میاں بچائے -
روح سے تشنگی نہیں جاتی
کیا کریں عاشقی نہیں جاتی
کہنا چاہوں جو بات اپنی میں
یار کے بن کہی نہیں جاتی
اب یہ وحشت یہ میری تنہائی
یاالہی سہی نہیں جاتی
مار ڈالے گا غم جدائی کا
اور یہ بے بسی نہیں جاتی
کتنا چپ چاپ ہو گیا ہوں میں
بات خود سے بهی کی نہیں جاتی
جان جاتی ہے عاشقوں کی لیک
دل سے حسرت کبهی...
اپنے قدموں میں ہی گرا پایا
جیت میں ہار کا مزا پایا
جس کو دیکها تمہارے ہی غم میں
ہم نے دنیا میں مبتلا پایا
اپنی ہر بات کو پرکھ دیکها
کچھ نہ اغیار سے ملا پایا
آپ سے ہم نے خود کو کم جانا
آپ نے خود سے ہم برا پایا
آرزو ہے وہ بار اٹهانے کی
جس کو عالم نہیں اٹها پایا
صاحب اس شوق میں گنوا کر سب...
اب چلے آئیے کہ روتے ہیں
غم گسار اس طرح کے ہوتے ہیں
دیکهئے تو ہمارا خط لکهنا
خون میں انگلیاں ڈبوتے ہیں
عشق کیا چیز ہے خدا جانے
جاگتے میں بهی اب تو سوتے ہیں
کل نہ جانے رہیں رہیں ہم لوگ
آئیے آج کل تو ہوتے ہیں
دل پہ جو میل تها کیا رخصت
اب تو دامن کے داغ دهوتے ہیں
کهلنے والے ہیں پهول الفت کے
بیج...
یوں پریشان ہو گئی ہو کیا
تم مری جان ہو گئی ہو کیا
سن کے میری اس آہ و زاری کو
تم بهی حیران ہو گئی ہو کیا
دیکھ کر میرے دل کا سونا پن
خود بهی ویران ہو گئی ہو کیا
اب جو خوابوں میں آ ستانا ہے
اتنی شیطان ہو گئی ہو کیا
میں تو کم عقل تها زمانے سے
تم بهی نادان ہو گئی ہو کیا
کوئی تجھ کو نہ آنکھ...
اپنے غم کی کتاب لکهوں گا
تیرے خط کا جواب لکهوں گا
اے حقیقت کو دیکهنے والو
دیکهنا ایک خواب لکهوں گا
ان کے بارے میں سن کے تهوڑا سا
میں بہت، بے حساب لکهوں گا
جب بهی لکهوں گا نام ان کا میں
ساتھ صاحب جناب لکهوں گا
تم جسے رحم سا بتاتے ہو
اپنی خاطر عذاب لکهوں گا
صاحب ان کا سنا جو میں انکار
سیدها...
یوں پریشان ہو گئی ہو کیا
تم مری جان ہو گئی ہو کیا
سن کے تنہائیوں کا رونا مجھ
تم بهی حیران ہو گئی ہو کیا
دیکھ دل کا یہ میرے سونا پن
خود بهی ویران ہو گئی ہو کیا
اب جو خوابوں میں آ ستانا ہے
اتنی شیطان ہو گئی ہو کیا
کوئی تجھ کو نہ آنکھ بهر دیکهے
تم مری آن ہو گئی ہو کیا
اب جو کہتا ہوں لوٹ آو نا...
آہ خوشیوں کے دن بهی آئیں گے
ہم بهی غم سے نجات پائیں گے
اللہ اللہ یہ رونے والے بهی
آپ کے ساتھ مسکرائیں گے
ہم تو اس واسطے ہی زندہ ہیں
وہ ہمیں رات دن ستائیں گے
ہم بهی جائیں گے طور تک واعظ
دیکهنا دیکھ کر دکهائیں گے
وہ بهی روٹها کمال کا ہم سے
ہم بهی کس طور سے منائیں گے
چلئے چند ایک ہی سہی...
آئینہ دیکهتا ہوں دکهلا دوں
اے زمانے تجهے میں جهٹلا دوں
حال دل ناتواں فقیروں کا
بادشاہوں کو جاوں بتلا دوں
اس خرابے میں تو بتا ناصح
اب میں کس طور دل کو بہلا دوں
مر کے ہی اب قرار آئے گا
آ مری زندگی کہ سہلا دوں
لب سے جاری ہیں لفظ دل کے آج
دل رقیبوں کہ کیوں نہ دہلا دوں
میرے مرنے کے بعد...
دشمنو کیسی کہی
عاشقو کیسی کہی
پوچهنا اغیار کا
صاحبو کیسی کہی
جاگتے ہیں نیند میں
غافلو کیسی کہی
سر کیا تسلیم آج
ظالمو کیسی کہی
بندگی کی داستاں
کافرو کیسی کہی
صاحب ناچیز نے
شاعرو کیسی کہی