میرے واسطے بهی دعا کرو
غم زندگی سے رہا کرو
کرو ذکر بهی کوئی واعظو
کہ نماز حق تو ادا کرو
مرا کیا قصور کہ تم بهلے
مرا کیا برا جو برا کرو
کوئی نام حق بهی لو غافلو
کرو یاد اپنا خدا کرو
یہاں روح کا نہ قیام ہے
یہاں خاک ہی میں رہا کرو
اے طبیب میرے دکهوں کی تم
وہی نام لو جو دوا کرو
کہیں کهو گئی...
بابا موبائل سے ہی لکه پایا ہوں کی بورڈ وغیرہ کا پتا نہیں چلتا -
آپ کی یاد نے جلا ڈالا
ہم غریبوں کو بهی مٹا ڈالا
ہو گئے آپ کے فقط ہم نے
ساری دنیا کو ہے بهلا ڈالا
یہ ہماری دعا ہوئی پوری
یا کہ پهر یار نے بلا ڈالا
مر گئے ہم تو پوچهتے کیا ہو
کس نے زندہ کیا مٹا ڈالا
جانے کس بیخودی میں بیٹهے ہیں...
نکلا جائے وقت ہر تدبیر سے
اب گلہ ہو بهی تو کیوں تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکه چکے شمشیر سے
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت ڈرا ہمدم کسی تعبیر سے
اے نگاہ مرد مومن تو بتا
حق کہیں غالب ہوا شمشیر سے
:praying:
شیر ہونے پر اتنا غرور مت کریں وجی بهائی آخر تو جانور ہی ہے ! :p اور نیشنل جیوگرافک چینل پر لگڑ بگڑوں سے بهاگتے ہوئے دیکها ہے شیروں کو :rollingonthefloor:
اس ستمگر کو مہرباں جانا
اس بهلے کا بهی ان برا مانا
توڑ کر آئینہء ہستی کو
ہم نے اپنا وجود پہچانا
کیا خبر کل کی صبح دیکهے کون
آج کے خواب میں ہی آ جانا
دیدہ و دل کو راہ کردوں گا
اس طرف ہو جو آپ کا آنا
صاحب اپنے نصیب میں کب تها
سکه سے جینا سکوں سے مرجانا
اپنے عاشق کا امتحاں لیجے
لاکه بہتر کہ میری جاں لیجے
دل ہتهیلی میں پیش کرتا ہوں
لیجئے میرے مہرباں لیجے
اپنے غم کی اب اس زمانے کو
ہم سنائیں گے داستاں لیجے
کب مکرتے ہیں عہد سے اپنے
ہم سے ہر طور کے بیاں لیجے
جانے کس دوستی کو روتے تهے
آج دشمن ہے آسماں لیجے
جان دینے پہ ہم بهی مائل ہیں
آپ کہئے کہ...
اس غم دہر سے گزر جائیں
جی میں آتا ہے آج مر جائیں
حال مت پوچهئے غریبوں کا
عین ممکن ہے آپ ڈر جائیں
سارا عالم بهی غم گسار ہو گر
زخم دل کے نہیں جو بهر جائیں
ہو چکے عشق میں ترے رسوا
کچه تو دنیا میں نام کر جائیں
ہم کہ صاحب عظیم وعدوں سے
اتنے گهٹیا نہیں مکر جائیں
فلک سے آزمایا جا رہا ہوں
زمانے سے چرایا جا رہا ہوں
کوئی دیکهے مرا بن جانا اب کے
میں ان ہاتهوں مٹایا جا رہا ہوں
ہجوم خلق ہے اس دہر میں لیک
تن تنہا ستایا جا رہا ہوں
چلا جاتا ہوں دل میں وہم لے کر
تری جانب بلایا جا رہا ہوں
وہ جن کی یاد میری زندگی ہے
میں کب ان سے بهلایا جا رہا ہوں
خدا جانے عظیم...
اب تو اپنے بهی ساته چهوڑ گئے
رخ کیوں ہم سے جناب موڑ گئے
وہ ہمیں قتل کو بلاتے تهے
شوق اپنا کہ دوڑ دوڑ گئے
دل ترے غم سے ٹوٹنے والے
ابن مریم کہو تو جوڑ گئے
میرے اس دل کے آئینے کو آپ
ایسا دیکها کئے کہ توڑ گئے
صاحب ایسے بهی رہنما دیکهے
بیچ رستے جو ہم کو چهوڑ گئے
لب پہ ان کے سوا سوال نہ تها
ہم کو اپنا بهی کچه خیال نہ تها
اب یہ جانا تها التفات اے دوست
میری جاں پر کوئی وبال نہ تها
اے مرے دل تجهے ہوا کیا ہے
اسقدر تو کبهی نڈهال نہ تها
کہہ چکا جو سنا گیا لوگو
اس میں میرا کوئی کمال نہ تها
زندگی تجه سے کیا شکایت اب
میری قسمت میں ہی وصال نہ تها
روز محشر کو...