حال کہہ کر شکستہ پائی کا
ہوش چھینا ہے اِس خُدائی کا
اے زمانے تُو رنگ دیکھے گا
اِس مری اِلتجا، دُہائی کا
اپنی خواہش نہیں رہی ہم کو
کیا کریں آرزُو پرائی کا
ہے مزہ چکھ لِیا رقیبو کیا
ہم سے اِس زور آزمائی کا
کل تلک تُم میں ہم رہے بھٹکے
آج دعوہ ہے رہنمائی کا
ہے وفاؤں پہ ناز اُن کی لیک
ایک دھڑکا...