زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے
دل ملا زیرِ قدم ان کے بچھانے کے لیے
اک ہمیں کیا رہ گئے بس آزمانے کے لیے
اور دنیا بھی تو ہے تیرے ستانے کے لیے
یہ شبِ ہجراں تو آئی ہے نہ جانے کے لیے
دوستو آنا مری مٹی اٹھانے کے لیے
حرص کی عادت نہ چھوٹی سبحہ گردانی میں بھی
دستِ زاہد دیکھ جنباں دانے...