بدر الفاتح صاحب، میں خود عربی زبان کا مبتدی طالبِ علم ہوں۔ کسی عربی جملے کا مفہوم درستی سے سمجھنے میں مجھے تاحال بہت وقت لگتا ہے اور کئی بار لغت ناموں اور دستوری کتابوں کی کمک درکار ہوتی ہے۔ یہ دھاگا اسی خیال کے تحت کھولا گیا ہے کہ یہاں عربی خوانی اور عربی سے ترجمہ کرنے کی مشق ہو سکے۔ میری کوشش...
أفادت دراسة بريطانية أن الذين يتحدثون لغتين من المرجح أن يتعافوا من السكتة الدماغية أسرع من الذين يتحدثون لغة واحدة.
أَفَادَتْ دِرَاسَةٌ برِيطَانِيَّةٌ أَنَّ الَّذِينَ يَتَحَدَّثُونَ لُغَتَيْنِ مِنَ الْمُرَجَّحِ أَنْ يَتَعَافَوْا مِنَ السَّكْتَةِ الدِّمَاغِيَّةِ أَسْرَعَ مِنَ الَّذِينَ...
ز هجران بدان گونه تلخ است عمرم
که آید برون، گر زنی زخم، خون تلخ
(امیر علیشیر نوایی)
ہجر سے میری عمر ایسی تلخ ہے کہ اگر تم زخم لگاؤ تو تلخ خون باہر آئے۔
ایران کے شہر شیراز میں چند نامعلوم شہریوں نے شہر کی ایک دیوار کو 'دیوارِ مہربانی' کے نام سے معنون کر کے اسے نیازمندانِ لباس کی گمنام اعانت کے مقام میں تبدیل کر دیا ہے۔ لوگ اپنے بے مصرف ملبوسات یہاں لٹکا جاتے ہیں اور جن افراد کو ان کی حاجت ہو وہ بغیر کسی واسطے کے یہاں سے لے جاتے ہیں۔ دیوار پر...
به صحرای جنون هر کو قدم زد چون مرا بیند
پیِ تعلیمِ سودا جانبِ مجنون نخواهد شد
(امیر علیشیر نوایی)
صحرائے جنوں میں جس بھی شخص نے قدم رکھا، وہ جب مجھے (وہاں) دیکھ لے تو پھر جنون کی تعلیم کے لیے مجنوں کی جانب نہیں جائے گا۔
ایرانی صوبے شمالی خراسان کا علاقہ 'راز و جرگلان' نجیب الاصل ترکمن گھوڑوں کی پرورش کا مرکز ہے۔ یہاں سالوں سے ترکمن گھوڑوں کی پرورش و تربیت کے طور طریقے نسل بہ نسل منتقل ہوتے آئے ہیں۔
عکاس: ابوطالب ندری
ماخذِ تصاویر: خبرگزاریِ مہر
تاریخ: ۱۶ دسمبر ۲۰۱۵ء
مقامی ترکمن آبادی اپنے روایتی...
"فارسی تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال تک برِ صغیر کی علمی، ادبی، ثقافتی، تدریسی اور سرکاری زبان رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں کے اہلِ علم و ادب نے بڑی کامیابی سے فارسی نظم و نثر کو ذریعۂ اظہار بنایا اور تمام رائج علوم و فنون پر ہزاروں اہم کتابیں لکھیں۔ خاص طور پر اس سرزمین کی ایک ہزار سالہ اسلامی تاریخ...
"گاهی شنیده میشود که اهلِ ذوق اعجاب میکنند که سعدی هفت صد سال پیش به زبانِ امروزیِ ما سخن گفتهاست ولی حق این است که سعدی هفت صد سال پیش به زبانِ امروزیِ ما سخن نگفتهاست بلکه ما پس از هفت صد سال به زبانی که از سعدی آموختهایم سخن میگوییم یعنی سعدی شیوهٔ نثرِ فارسی را چنان دلنشین ساخته که...
گه معتکفِ دیرم و گه ساکنِ مسجد
یعنی که ترا میطلبم خانه به خانه
(مولانا خیالی بخارایی)
میں کبھی دَیر میں معتکف ہوتا ہوں اور کبھی مسجد میں مقیم ہوتا ہوں۔۔۔ یعنی کہ میں تجھے خانہ بہ خانہ تلاش کرتا ہوں۔
جز سرانگشتِ ندامت نیست رزقِ کاهلان
مُزد میخواهی، چو مردان روز و شب در کار باش
(صائب تبریزی)
کاہلوں کا رزق سرانگشتِ ندامت کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ (اگر) اُجرت چاہتے ہو تو مَردوں کی طرح روز و شب مشغولِ کار رہو۔
ز هجرت خانهٔ دل تیره بود ای مه خوشم اکنون
که در وی تیغ و تیرت رخنهها افکند و روزن هم
(امیر علیشیر نوایی)
اے ماہ! تمہارے ہجر سے (میرا) خانۂ دل تاریک تھا، (لیکن) میں اب خوش ہوں کہ اُس میں تمہاری تیغ اور تیر نے شگاف ڈال دیے ہیں اور روزن بھی بنا دیا ہے۔
درختِ دوستی بنْشان، که کامِ دل به بار آرد
نهالِ دشمنی برکَن، که رنجِ بیشمار آرد
(حافظ شیرازی)
دوستی کا درخت بوؤ کہ یہ آرزوئے دل کا پھل لاتا ہے۔۔۔ دشمنی کا پودا اکھاڑ دو کہ یہ بے شمار رنج لاتا ہے۔
تَنَصُّر
محمد علی فروغی نے اپنی کتاب آئینِ سخنوری (۱۹۳۷ء) میں یہ لفظ مسیحی ہو جانے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ میں نے یہ دلچسپ عربی الاصل لفظ پہلی بار دیکھا ہے۔
"پس از تَنَصُّرِ قیصر دیانتِ قدیمِ رومی و یونانی که شرک و بتپرستی بود از میان رفت و نصرانیت دینِ رسمیِ یونانیان و رومیان گردید."...
ز غمِ تو همچو شمعم که چو شمع در غمِ تو
چو نفس زنم بسوزم چو بخندم اشک بارم
(عطّار نیشابوری)
میں تمہارے غم سے شمع جیسا ہوں کہ شمع کی مانند تمہارے غم میں جب سانس لیتا ہوں تو جلتا ہوں اور جب ہنستا ہوں تو اشک باری کرتا ہوں۔
ز تواَم من آنچه هستم که تو گر نهای نیَم من
که تویی که آفتابی و منم که ذرّه...