کوپروک/köpruk/кӯпрук
ماوراءالنہری نَوِشتاری فارسی میں 'پُل' کے معنی میں ترکی لفظ 'کوپروک' بھی استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔
تاجکستانی اخباروں سے مثالیں دیکھیے:
"اسلام ضیازاده، رئیسِ شهرِ پنجَکنت میگوید، اگر وزارتِ نقلیاتِ کشور اجازت دهد، در بالای دریای زرافشان کوپروک خواهند گذاشت."
"خالهٔ فیضیه، که...
مادرم رفت، نیز بشْتابم،
روحِ پاکش در انتظارِ من است.
(لایق شیرعلی)
میری مادر چلی گئیں، [اب] مجھے بھی جلدی کرنی چاہیے؛ اُن کی روحِ پاک میرے انتظار میں ہے۔
(دوبیتی)
ز عشقت دلفگار و سینهچاکم،
ز هَجرت خستهجان و دردناکم.
به رویِ خاک یادِ من نکردی،
کنی یادم، چو اندر زیرِ خاکم.
(لایق شیرعلی)
تمہارے عشق سے میں دل فگار و سینہ چاک ہوں؛ تمہارے ہجر سے میں خستہ جان و دردمند ہوں؛ خاک کے اوپر تو تم نے مجھے یاد نہیں کیا [لیکن] جب میں زیرِ خاک چلا جاؤں گا تو...
آرزو هر دم مرا تا آسمانها میبَرَد
زندگی هر دم مرا بر خاک یکسان میکند
(لایق شیرعلی)
آرزو ہر دم مجھے آسمانوں تک لے جاتی ہے، [جبکہ] زندگی ہر دم مجھے خاک سے یکساں کر دیتی ہے۔
چو گوهر از دمِ تسلیم کن سپر بیدل
در این محیط که تیغ است سر کشیدنِ موج
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! اِس بحرِ محیط میں کہ جس میں موج کی سرکشی تیغ [کی مانند] ہے، تم گوہر کی طرح دمِ تسلیم کو سپر بناؤ۔
ز روزِ گذر کردن اندیشه کن
پرستیدنِ دادگر پیشه کن
بترس از خدا و میازار کس
رهِ رستگاری همین است و بس
(فردوسی طوسی)
روزِ جزا کی فکر کرو؛ خدائے عادل کی پرستش کرنے کو پیشہ بناؤ؛ خدا سے ڈرو اور کسی کو آزردہ مت کرو؛ راہِ نجات یہی ہے اور بس۔
× لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'روزِ گذر کردن' کا معنی روزِ جزا ہے...
کوچهباغ
کوچهای، که از بینِ باغات میگذرد؛ راهِ دو طرفش سبز و درختزار؛ کوچهباغِ عاشقان باغی، که در آن دلدادهها با هم صحبت میکنند و رازِ دل میگویند.
[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، ص ۶۷۵]
ترجمہ:
وہ کوچہ جو باغات کے درمیان سے گذرتا ہے؛ وہ راہ جس کے دونوں طرف سبزہ اور درخت ہوں؛
کوچہ...
(دوبیتی)
تو، ای شعرِ روانِ من، کجایی؟
تو، ای تاب و توانِ من، کجایی؟
مرا پیری به چنگِ خود گرفتهست،
تو، ای یارِ جوانِ من، کجایی؟
(لایق شیرعلی)
اے میرے شعرِ رواں، تم کہاں ہو؟ اے میری تاب و تواں، تم کہاں ہو؟ مجھے پِیری نے اپنے چنگل میں لے لیا ہے؛ اے میری یارِ جواں، تم کہاں ہو؟
× پِیری = بڑھاپا
این فخر بس مرا که به هر دو زبان
حکمت همی مرتّب و دیوان کنم
جان را ز بهرِ مدحتِ آلِ رسول
گه رودکی و گاهی حسّان کنم
(ناصر خسرو)
یہ فخر میرے لیے کافی ہے کہ میں دونوں زبانوں (فارسی و عربی) میں حکمت مرتّب و تألیف کرتا ہوں؛ میں [اپنی] جان کو آلِ رسول کی مدحت کے لیے کبھی رودکی اور کبھی حسّان کرتا ہوں۔
تنها نه من جنونیِ ابرویِ اُوستم
آن ماهِ نو که دید که عقلش نزایلید
(طرزی افشار)
صرف میں ہی اُس کے ابرو کا جنونی نہیں ہوں۔۔۔ ایسا کون ہے جس نے اُس ماہِ نو کو دیکھا ہو اور اُس کی عقل زائل نہ ہو گئی ہو؟
× 'زایلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
خانہ و عجائب خانۂ صدرالدین عینی
معروف تاجک مصنف صدرالدین عینی کے خانے (گھر) کا شمار شہرِ سمرقند کے اہم آثارخانوں میں ہوتا ہے، جو کوچۂ ریگستان کے نزدیک واقع ہے۔ اس عجائب خانے میں صدرالدین عینی اور اُن کے خانوادے سے تعلق رکھنے والوں کے باقی ماندہ آثار اور دیگر تاریخی اشیاء کی نگہداری کی جاتی ہے۔...
مدرسۂ اُلُغ بیگ
مدرسۂ اُلُغ بیگ تیموری پادشاہ اُلُغ بیگ بن شاہرخ کے حکم سے تعمیر ہوا تھا۔ اِس کی عمارت چار ایوانوں اور چار میناروں پر مشتمل ہے اور اِس کا چہرہ میدانِ ریگستان کی جانب ہے۔ اِس عمارت کے ۳۰ میٹر مربع صحن کے اطراف میں مسجد اور دینی طلبہ کی تعلیم کے لیے حجرے موجود ہیں۔
ماخذ...
مقبرۂ امام بخاری
ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، معروف بہ امام بخاری، جہانِ اسلام کے ایک مشہور ترین محدث تھے جو ۸۱۰ء میں بخارا میں متولد ہوئے تھے۔ 'صحیح بخاری' سے موسوم اُن کی مرتّب کردہ احادیث کی کتاب مسلمانوں کے درمیان اہم ترین کتبِ حدیث میں شمار ہوتی ہے۔
ماخذ
جاری ہے۔۔۔
مقبرۂ امیر تیمور یا گورِ امیر
گورِ امیر تیموری/گورکانی شاہی سلسلے کے بانی امیر تیمور کی قبر ہے، جس نے ایرانی سرزمینوں کے ایک بیشتر حصے پر اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ یہ عمارت ۸۰۷ ہجری میں تعمیر ہوئی تھی اور اِس میں تیمور اور تیموری خاندان کے چند دیگر امراء مثلاً شاہرخ، میران شاہ، اُلُغ بیگ اور محمد...
مسجدِ بی بی خانم
شہرِ سمرقند کی ایک اہم یادگار مسجدِ بی بی خانم ہے جو پندرہویں صدی عیسوی میں امیر تیمورِ گورکانی کے توسط سے تعمیر ہوئی تھی۔ بی بی خانم تیمور کی زوجہ کا نام تھا۔
ماخذ
جاری ہے۔۔۔
عکاس: جمشید شایف
تاریخ: ۲۱ مِهر ۱۳۹۵هش/۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء
متون اور تصاویر کا ماخذ: بی بی سی فارسی
مسجد و مدرسۂ طلاکاری
اِس عمارت کو اِس کے ایک گنبدِ زریں کی وجہ سے طلاکاری کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت گیارہویں صدی ہجری میں مدرسۂ شیردار کی تکمیل کے دس سال بعد بنائی گئی تھی۔ یہ مدرسہ صرف طلبہ کی جائے آموزش...
به جز سوزنده اخگر گل نگُنجد در گریبانم
بدآموزِ عتابم، برنتابم مهربانی را
(غالب دهلوی)
میرے گریباں میں، سوائے جلانے والی چنگاری کے کوئی پھول نہیں سماتا۔ میری عادتوں کو معشوق کے عتاب نے بگاڑا ہے۔ میں اندازِ مہربانی کی تاب ہی نہیں لا سکتا۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)