نتائج تلاش

  1. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    عُرفی شیرازی کے ایک حمدیہ قصیدے سے ایک بیت: در ثنایت چون گشایم لب که برقِ ناکسی مَنطِقم را آتش اندر خانمان انداخته (عُرفی شیرازی) [اے خدا!] میں تمہاری ثنا میں لب کیسے کھولوں؟ کہ برقِ ناکَسی نے میرے خانۂ نُطق کے اندر آتش لگا دی ہے۔
  2. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    عُرفی شیرازی کے ایک حمدیہ قصیدے سے ایک بیت: نورِ حیرت در شبِ اندیشهٔ اوصافِ تو بس همایون مرغِ عقل از آشیان انداخته (عُرفی شیرازی) [اے خدا!] نورِ حیرت نے تمہارے اوصاف کی فکر کی شب میں کتنے ہی فرخندہ و مبارک مُرغانِ عقل کو آشیان سے گرا دیا ہے۔ یعنی: اے خدا! تمہارے اوصاف کو سمجھنے کی فکر میں...
  3. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    علی اِمشب مَیِ شیراز در جام و سبو دارد الا یا ایُّها الساقی ادِر کأساً وَناوِلْها (ناصر علی سرهندی) 'ناصر علی' کے جام و سبو میں اِس شب بادۂ شیراز ہے۔۔۔ اے ساقی! کاسۂ [شراب] گھماؤ اور پیش کرو۔
  4. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    من نه تنها باختم در راهِ آن بت نقدِ دین زان بتِ بی‌دین، فضولی، هیچ اهلِ دین نرَست! (محمد فضولی بغدادی) اے فضولی! صرف میں ہی اُس بت کی راہ میں نقدِ دین نہیں ہارا، [بلکہ] اُس بُتِ بے دین سے کوئی بھی اہلِ دین نہ بچا۔
  5. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    فتاده‌است، فضولی! به دستم آن خمِ زلف هزار شکر که دورِ فلک به کامِ من است (محمد فضولی بغدادی) اے فضولی! میرے دست میں [یار کا] وہ خَمِ زُلف آ گیا ہے؛ ہزار شکر کہ فلک کی گردش میری آرزو کے موافق ہے!
  6. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    به دنیا کارِ عُقبیٰ کن که شدّت می‌کشد آن کس که تابستان نباشد غُصّهٔ برگِ زمستانش (محمد فضولی بغدادی) دنیا [ہی] میں کارِ آخرت کرو، کہ جس شخص کو موسمِ گرما میں موسمِ سرما کے ساز و ساماں اور تیّاری کا غم نہ ہو وہ سختی جھیلتا ہے۔
  7. حسان خان

    زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

    'به سرد' یعنی سرد مِہری و بے اعتنائی سے۔ 'سوزنده' اسمِ فاعل ہے یعنی جلانے والا۔ 'ھرگز' سوالیہ مصرعے میں 'کسی بھی وقت' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کب کسی نے ایسا جلانے والا دیکھا؟ 'به این سردی' = اِس سردی سے، اِس سردی کے ساتھ، اِس سردی کے ذریعے 'سردی' یہاں پر 'گرمی' کے متضاد کے طور پر...
  8. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    به ره چو پیشِ تو آیم، تو را سلام کنم به سرد پاسخ گویی علیک و برگردی بسوختی تر و خشکِ مرا به پاسخِ سرد که دید هرگز سوزنده‌ای به این سردی؟ (خاقانی شروانی) میں راہ میں جب تمہارے سامنے آ کر تمہیں سلام کرتا ہوں؛ تم سرد مِہری سے 'علیک' جواب دے کر مُڑ جاتے ہو؛ تم نے [اپنے] سرد جواب سے میرے خشک و تر کو...
  9. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    به مُردن از غمِ دل رَسته بودم، آن لبِ لعل حیات داد مرا باز در عذاب انداخت (محمد فضولی بغدادی) میں مر کر غمِ دل سے نجات پا گیا تھا، [لیکن] اُس لبِ لعل نے مجھے زندگی دے کر دوبارہ عذاب میں ڈال دیا۔
  10. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    از آن در این چمنم میلِ گل‌عذاری نیست که هیچ برگِ گلی بی‌بلای خاری نیست (محمد فضولی بغدادی) مجھے اِس چمن میں اِس لیے کس گُل رخسار کی جانب میل نہیں ہے کہ کوئی بھی برگِ گُل کسی خار کی بلا کے بغیر نہیں ہے۔
  11. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    نیست جز لیلیٰ بقای عشقِ مجنون را سبب ضایع است آن کس که بر گل‌چهره‌ای منسوب نیست (محمد فضولی بغدادی) عشقِ مجنوں کی بقا کا سبب بجز لیلیٰ نہیں ہے؛ وہ شخص ضائع ہے جو کسی گُل چہرہ سے منسوب نہیں ہے۔
  12. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    ساکنِ خاکِ درِ او شده‌ام لیک چه سود گرچه دارم صفتِ صیدِ حرم می‌کُشَدم (محمد فضولی بغدادی) میں نے اُس کے در کی خاک پر سکونت اختیار کی ہے، لیکن کیا فائدہ؟ کہ اگرچہ میں صیدِ حرم کی صفت رکھتا ہوں، [لیکن] وہ مجھے [پھر بھی] قتل کرتا ہے۔ × صیدِ حرم اُس جانور کو کہتے ہیں جو سرزمینِ حرم کی حدود میں ہو۔...
  13. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    ازرقی هروی کے ایک قصیدے سے ایک بیت: چو در دریایِ دستِ تو بجُنبد موجِ زرافشان ستاره بادبان باید، فلک کشتی، زمین لنگر (ازرقی هروی) جب تمہارے دستِ [جُود و کرم] کے دریا میں موجِ زرافشاں حرکت میں آئے تو بادباں کے طور پر ستارہ، کشتی کے طور پر فلک، اور لنگر کے طور پر زمین لازم ہے۔
  14. حسان خان

    زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

    برادر محمد ریحان قریشی، خاقانی شروانی کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے: به ره چو پیشِ تو آیم، تو را سلام کنم به سرد پاسخ گویی علیک و برگردی بسوختی تر و خشکِ مرا به پاسخِ سرد که دید هرگز سوزنده‌ای به این سردی؟ (خاقانی شروانی)
  15. حسان خان

    فارسی ابیات کی لفظی تحلیل و تجزیہ

    نمی‌خواهم که بیند هیچ کس در خواب آن مه را همه شب چون ننالم خلق را بیدار می‌خواهم (محمد فضولی بغدادی) میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص اُس ماہ کو خواب میں دیکھے؛ میں تمام شب کیوں نہ نالہ کروں؟ میں خلق کو بیدار رکھنا چاہتا ہوں۔ خواسْتن (xâstan) = چاہنا، خواہش کرنا، آرزو کرنا خواه (xâh) = 'خواستن'...
  16. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    محمد فضولی بغدادی کے ایک قصیدے سے اقتباس: هر که مِهرِ چارده معصوم دارد، کامل است هست ماهِ چارده را هم از آن مِهر، این کمال نیست دورِ چرخ جز بر منهجِ اِثنا عَشَر ظاهر است این معنی از وفقِ حسابِ ماه و سال هر شهنشاهی که دارد صِدق با آلِ علی در نظامِ مُلکِ او راهی ندارد اِختِلال هر سرافرازی که باشد...
  17. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    میں نے گذشتہ چند روز کے دوران کئی ایسے تاریخی اشعار ارسال کیے تھے جو شیعوں کی مخالفت میں لکھے گئے تھے۔ اب ایک بیت ایسی ملاحظہ کیجیے جو شیعوں کے حق میں ہے۔ شاہ طہماسب صفوی کے دور میں ۹۶۰ھ میں حاکمِ گیلان 'خان احمد گیلانی' نے زیدی شیعیت کو کنار رکھ کر صفویوں کی اثناعشری شیعیت کو قبول کر لیا تھا۔...
  18. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    خرّمی چون باشد اندر کویِ دین کز بهرِ حق خون روان گشته‌ست از حلقِ حُسین در کربلا (سنایی غزنوی) دین کے کوچے میں نشاط و راحت کیسے ہو سکتی ہے؟ کہ حق کی خاطر کربلا میں حلقِ حُسین سے خوں رواں ہوا ہے۔ (یعنی دین کی راہ آسان نہیں ہے۔)
  19. حسان خان

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    بنازم به بزمِ محبت که آنجا گدایی به شاهی مقابل نشیند (طبیب اصفهانی) مجھے بزمِ محبت پر ناز ہے کہ وہاں گدا شاہ کے مقابل بیٹھتا ہے۔
  20. حسان خان

    زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

    اِسی قصیدے کی ایک بیت میں میرزا غالب نے شاہنامۂ فردوسی کے تین دیگر کرداروں جمشید، رُستم اور سام کا ذکر بھی کیا ہے: بزم میں میزبانِ قیصر و جم رزم میں اوستادِ رُستم و سام شاہنامۂ فردوسی کے مطابق 'سام' رُستم کا دادا تھا۔
Top