اعتزاز صاحب کی غزل واقعی سمجھ سے بالا تر ہے۔ البتہ مجھے کسی کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔ احباب کو دعوت ہے کہ اس شعر پر بھی کچھ تبصرہ فرمائیں۔
دھوپ کی تمازت ہے موم کے مکانوں پر
اور وہ بھی لے آئے ہیں سائباں شیشے کا
قبلہ! اقبال تو یہ بھی کہہ گئے ہیں۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
اور
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اور
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
بہت شکریہ جویریہ لیکن جس شعر نے آپ کو چونکایا ہے اسی شعر میں قبلہ خود ہی فرماتے ہیں کہ وصل سے چاہے جو بھی تکلیف ہو اس سے کچھ دیر کے لئے پرہیز تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس تکلیف کا مداوا کرنے کی کوشش بالکل نہیں کریں گے۔ لہٰذا مقطع تک جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ :)
توبہ ہے کہ ہم عشق، بتوں کا نہ کریں گے
وہ کرتے ہیں اب، جو نہ کیا تھا، نہ کریں گے
ٹھہری ہے کہ ٹھہرائیں گے، زنجیر سے دل کو
پر، برہمیِ زلف کا سودا نہ کرِیں گے
اندیشہ مژگاں میں اگر خوں نے کیا جوش
نشتر سے علاجِ دلِ دیوانہ کرِیں گے
گر آرزوئے وصل نے بیمار کیا تو
پرہیز کریں گے، پہ مداوا نہ کریں گے...
معذرت چاہتا ہوں فاتح صاحب دیر سے جواب دینے کے لئے۔ لیکن میں محفل میں بھی کم آرہا ہوں کیونکہ بہت مصروف ہوں امید ہے 27 دسمبر کے بعد کچھ فراغت نصیب ہوگی۔ ویسے تو میرے لئے نثر ٹائپ کرنا سوہانِ روح ہے لیکن پھر بھی جو بن پڑا ضرور کروں گا۔ :)