واللہ کیا نظم ہے۔ میرے خیال میں نوید بھائی آپ غزلوں کو چھوڑ کر نظموں پر توجہ دیں۔ واہ واہ میں تو نظم کے سحر میں گُم ہو گیا ہوں۔ یوں لگتا ہے اصل نوید صادق کہیں انہی نظموں میں ہے۔ بہت داد قبول ہو نوید بھائی۔ :)
غزل
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل...
محمود صاحب، طفیل نیازی نے سب سے خوبصورت گایا ہے۔ محمد جواد بھی طفیل نیازی کا اسیر ہے اور اس کافی کی طرز بناتے ہوئے اس نے خاص طور پر خیال رکھا تھا کہ طفیل نیازی والی دھن کا شائبہ نظر نہ آئے۔
شکریہ وارث صاحب۔ ضرور پہنچاؤں گا۔
واہ واہ نوید صاحب۔ اتنے عرصے بعد آپ آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ غمِ روزگار نے یہ دو نظمیں کہلوائی ہیں۔ لیکن تخلیقی سطح پر اتنہائی اعلیٰ پائے کی نظمیں ہیں۔ بہت ہی خوب جناب! آپ کے ہم معتقد ہو گئے ہیں۔ :)
غزل
لبِ خاموش سے اظہارِ تمنا چاہیں
بات کرنے کو بھی تصویر کا لہجہ چاہیں
تو چلے ساتھ تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں
ظاہری آنکھ سے کیا دیکھ سکے گا کوئی
اپنے باطن پہ بھی ہم فاش نہ ہونا چاہیں
جسم پوشی کو ملے چادرِ افلاک ہمیں
سر چھپانے کے لئے وسعتِ صحرا چاہیں
خواب...
میرے ایک دوست محمد جواد بہت عمدہ انداز میں کلاسیکی موسیقی گاتے ہیں۔ محمد جواد ہی کی آواز اور موسیقی میں شاہ حسین کی ایک کافی جس کی طرز مجھے بہت پسند ہے۔ ریکارڈ کرنے سے بہت عرصے پہلے بھی محمد جواد مجھے یہ کافی سنایا کرتے تھے۔
میں وی جانا جھوک رانجھن دی
گلوکار: محمد جواد
موسیقی: محمد جواد