غزل
شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنانِ صدا گئے
پھیلی وہ بُو جو ہم میں نہاں مثلِ غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گُل کھلا گئے
اے آبِ اشک آتشِ عنصر ہے دیکھنا
جی ہی گیا اگر نفسِ شعلہ زا گئے
مجلس...