جناب ادریس بابر کی زمین میں طبع آزمائی کی اپنی سی کوشش کی ہے
اساتذہ کرام کی خدمت میں پوسٹ مارٹم کے لیے پیش ہے
زیست اپنی کا ہے اتنا سا خلاصہ مِرے دوست
چاہتیں بانٹ کے بھی چین نہ پایا مِرے دوست
سوکھے تنکوں کی طرح دل کو جلا ڈالے جو
کیا کبھی تم نے بھی وہ روگ ہے پالا مِرے دوست
لُٹ گئی چشمِ زدن میں...