نتائج تلاش

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جنونِ تعمیر آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    جنونِ تعمیرِ آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ جو ہوش آیا تو ہم نے دیکھا، بہ شاخِ نازک ہے آشیانہ کوئی قرینہ نہیں ہے باقی، بھَلا ہو اے گردشِ زمانہ کہاں وہ رندی، کہاں وہ ساقی، کہاں وہ اب مستیِ شبانہ بتا دے ان رہ رَووں کو کوئی قدم اٹھائیں نہ عاجلانہ سنا ہے صحنِ چمن میں ہر سو قدم قدم پر ہے دام و...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: رنگِ چمن میں اب بھی ہے حسنِ دلبرانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    رنگِ چمن میں اب بھی ہے حسنِ دلبرانہ دل کی روش ہے لیکن گلشن سے وحشیانہ باران و بادِ صر صر، برقِ تپاں شبانہ سو طرح کے مصائب، اک شاخِ آشیانہ دورِ وصالِ جاناں، دورِ فراقِ جاناں وہ زندگی حقیقت، یہ زندگی فسانہ کیفِ وصال تیرا، دردِ فراق تیرا پیغامِ زندگی وہ، یہ موت کا بہانہ محوِ خرامِ گلشن تجھ...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ کون ہوا ہے بزمِ جہاں میں بندۂ ذیشاں تم سے زیادہ امن و اماں کے ہم ہیں پیامی، صلح میں کوشاں تم سے زیادہ جب ہوں مگر باطل کے مقابل، حشر بداماں تم سے زیادہ اپنے صنم کے قرب و رضا کا رہتا ہے خواہاں تم سے زیادہ شیخِ مکرم! ہے یہ برہمن صاحبِ ایماں تم...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: فرصت نصیب از لعب و ہاؤ و ہُو نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    فرصت نصیب از لعب و ہاؤ و ہُو نہیں مدت سے میری دل سے ہوئی گفتگو نہیں ساقی نہیں، وہ بادۂ و جام و سبو نہیں وہ مستیِ شبانہ وہ جوشِ لہو نہیں یکسو ہوا ہوں میری نگہ سو بہ سو نہیں تجھ کو ہی دیکھنا ہے تو کیا دل میں تو نہیں مانا رہِ طلب میں قدم زن نہیں ہوں پر یہ بھی نہیں کہ دل میں تری آرزو نہیں اے دل...
  5. محمد تابش صدیقی

    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ٭ کاشف حفیظ

    حکومت بنانا اکثریتی منتخب جماعت کا جمہوری حق ہے ۔ اس مقصد کیلئے چھوٹی جماعتوں کیلئے افہام و تفہیم لازمی ہے ۔ اگر کل کے شدید مخالف اور مختلف خیال جماعتیں اگر کسی مستحکم حکومت اور محفوظ پاکستان کیلئے کسی ایک چھتری کے تحت جمع ہو رہے ہیں تو اسکو "وسیع القلبی" سے بھی ماخوز کیا جا سکتا ہے ۔ مگر شاید...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جذبۂ عشقِ شہِ ہر دو سرا ہے کہ نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    جذبۂ عشقِ شہِ ہر دو سرا ہے کہ نہیں دیکھیے دل کو مسلمان ہوا ہے کہ نہیں کون سا زیست میں وہ تلخ مزا ہے کہ نہیں ایسے جینے سے تو مرنا ہی بھلا ہے کہ نہیں میری ہر بات پہ تم نے جو کہا ہے کہ نہیں خود ہی سوچو یہی جھگڑے کی بنا ہے کہ نہیں حوصلہ ہے کہ میں محرومِ بیاں رکھتا ہوں کون سا تجھ سے مجھے ورنہ گِلہ...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بے تابیاں نہیں ہیں کہ رنج و الم نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    بے تابیاں نہیں ہیں کہ رنج و الم نہیں اِس ایک دل پہ عشق کے کیا کیا کرم نہیں دو دن کی زندگی اسے صدیوں سے کم نہیں وہ کم نصیب ہے جسے توفیقِ غم نہیں دنیا ستم طراز سہی کوئی غم نہیں دنیا سے بھاگ جائیں مگر ایسے ہم نہیں منزل مری جدھر ہے رخِ دل اُدھر کہاں صد حیف مجھ سے دل ہی مرا ہمقدم نہیں دنیا کی...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: اس حقیقت سے میں نا محرم نہیں٭ نظرؔ لکھنوی

    اس حقیقت سے میں نا محرم نہیں ہو تمہیں تم اور کچھ بھی ہم نہیں ابنِ آدم کی یہ دل بیزاریاں چند انساں بھی تو خوش باہم نہیں دل ابھی تک موردِ اوہام ہے رشتۂ ایماں ابھی محکم نہیں وہ بتِ کافر بھی اُف کہنے لگا بازوئے مسلم میں اب دَم خَم نہیں ڈگمگاتے ہیں قدم چلنا محال دردِ الفت کی چمک پیہم نہیں...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دل تری یاد سے کس رات ہم آغوش نہیں٭ نظرؔ لکھنوی

    دل تری یاد سے کس رات ہم آغوش نہیں نیند آتی مجھے کس وقت ہے کچھ ہوش نہیں رندِ شائستہ ہوں میں رندِ بلا نوش نہیں ہیں مرے ہوش بجا تیرے بجا ہوش نہیں شاخِ نخلِ چمنستاں ابھی گل پوش نہیں دیکھنا رنگِ بہاراں کا ابھی جوش نہیں نگہِ ساقیِ گلفام کہ ہے ہوشربا کون ایسا ہے سرِ بزم کہ مدہوش نہیں سحر انگیزی...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کہاں پہ جلوۂ جاناں کا انعکاس نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    کہاں پہ جلوۂ جاناں کا انعکاس نہیں نگاہ دیکھنے والی ترے ہی پاس نہیں کوئی بھی شکل نہ دیکھی کہ جو اداس نہیں ہوائے گلشنِ ہستی کسی کو راس نہیں بفیضِ عشق میسر نہیں ہے کیا دل کو خلش نہیں کہ نہیں رنج و غم کہ یاس نہیں یہ قولِ اہلِ خرد ہے ہمیں نہیں کہتے سکونِ دل کا مداوا خرد کے پاس نہیں خود اپنی ذات...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں پھر بات یہ کیا ہے اے ہمدم! کیوں مطلعِ دل پر نور نہیں تحصیلِ جناں مطلوب نہیں، مقصودِ عبادت حور نہیں جز تیری رضا، جز تیری خوشی، کچھ اور مجھے منظور نہیں آزادی انساں کا مبحث دو رُخ سے سمجھنا ہے یعنی مختار ہے اور مختار نہیں، مجبور ہے اور مجبور نہیں اک...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مرے شعلہ بار نالے مری شعلہ بار آہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    مرے شعلہ بار نالے، مری شعلہ بار آہیں نہ جلا کے راکھ کر دیں کہیں تیری خواب گاہیں ترے ہر ستم کو سہہ کر ترا ہر ستم سراہیں یہ نہ ہم سے ہو سکے گا تری دوستی نباہیں سرِ شام ہی سے نالے، سرِ شام ہی سے آہیں شبِ غم سے کس طرح ہم دمِ صبح تک نباہیں دلِ بد نصیب ہی کو کوئی عارضہ ہے ورنہ وہی سحر ان میں اب...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جو عقدہ کشا ہے وہ سرا بھول گئے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    جو عقدہ کشا ہے وہ سرا بھول گئے ہیں کیا بھول ہے ہم دینِ خدا بھول گئے ہیں پھر ظلمتِ دل ڈسنے کو آئی ہے ہمیں آہ شبگوں جو تری زلفِ دوتا بھول گئے ہیں جھگڑا نہ فرو ہو گا ہمارا یہ کسی سے ہم اصل میں جھگڑے کی بنا بھول گئے ہیں پھر عقلِ دل آزار کی باتوں میں ہم آئے پھر ہم نگہِ ہوشربا بھول گئے ہیں...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں کم ہوتے ہوئے اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں اک عالمِ پنہاں وَ دگر دیکھ رہے ہیں جو چیر کے ذرہ کا جگر دیکھ رہے ہیں افسونِ شبِ تار سے مغلوب ہوا تُو ہم چشمِ تصور سے سحر دیکھ رہے ہیں دل خانۂ سرد اب تو ہوا جاتا ہے صد حیف بجھتا ہوا ایماں کا شرر دیکھ رہے ہیں سینچا ہے...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں پھر بھی کس شوق سے سب اہلِ جہاں ٹھہرے ہیں ناتواں دل ہے مگر عزم جواں ٹھہرے ہیں ان سے پوچھے کوئی آ کر یہ کہاں ٹھہرے ہیں نیند آ جائے ہمیں بھی نہ عیاذاً باللہ سب یہ کہتے ہیں کہ وہ سحر بیاں ٹھہرے ہیں ہم نے واعظ کو نہ پایا کبھی سرگرمِ عمل دمِ تقریر مگر شعلہ...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: وہ جب سے بدگمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    وہ جب سے بدگمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں ہمیں بے کیف سے کون و مکاں معلوم ہوتے ہیں وہ رگ رگ میں مری روحِ رواں معلوم ہوتے ہیں نظر آئیں نہ آئیں دلستاں معلوم ہوتے ہیں اِدھر ذرے ہیں تابندہ، اُدھر تارے درخشندہ ترے جلوے زمیں تا آسماں معلوم ہوتے ہیں مرے قصے میں ضمناً آ گئے تھے تذکرے ان کے وہی وجہِ...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں دیکھیں نہ تو ان...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عطاؤں میں شانِ کرم دیکھتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    عطاؤں میں شانِ کرم دیکھتے ہیں وہ دل کے لیے بسطِ غم دیکھتے ہیں ہم ان کا کرم در کرم دیکھتے ہیں توجہ ترحّم بہم دیکھتے ہیں دلوں پر ہیں جن کے عنایت کی نظریں وہ تا اوجِ لوح و قلم دیکھتے ہیں غم و نالۂ و آہ و اندوہ و حرماں محبت ستم ہی ستم دیکھتے ہیں نگاہِ توجہ مداوائے صد غم کرم کو محیطِ ستم...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں٭ نظرؔ لکھنوی

    درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ آ سکتے ہیں در بدر...
  20. محمد تابش صدیقی

    پاکستان عام انتخابات 2018ء ٭ تبصرے، صورتحال، نتائج

    آج پاکستان میں عام انتخابات کا دن ہے۔ اس لڑی میں ہم دن بھر کی صورتحال پر نظر رکھیں گے اور نتائج بھی جیسے جیسے معلوم ہوتے جائیں گے، پوسٹ کرتے رہیں گے۔ آپ کیمپس، ووٹنگ، ماحول وغیرہ کی تصاویر بھی یہاں شئر کر سکتے ہیں۔ اپنا پولنگ سٹیشن جاننے کے لیے آپ 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس...
Top