نظر لکھنوی غزل: قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ ٭ نظرؔ لکھنوی

قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ
کون ہوا ہے بزمِ جہاں میں بندۂ ذیشاں تم سے زیادہ

امن و اماں کے ہم ہیں پیامی، صلح میں کوشاں تم سے زیادہ
جب ہوں مگر باطل کے مقابل، حشر بداماں تم سے زیادہ

اپنے صنم کے قرب و رضا کا رہتا ہے خواہاں تم سے زیادہ
شیخِ مکرم! ہے یہ برہمن صاحبِ ایماں تم سے زیادہ

عقل پریشاں، فکر پریشاں اور ہمارے خواب پریشاں
تیرے پریشاں بسکہ ہیں گیسو، ہم ہیں پریشاں تم سے زیادہ

بادۂ عرفاں، بادۂ وحدت، جامِ صبوحی، جامِ غبوقی
مجھ کو ملا از ساقیِ کوثر، سب ہی یہ ساماں تم سے زیادہ

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

ام اویس

محفلین
قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ
کون ہوا ہے بزمِ جہاں میں بندۂ ذیشاں تم سے زیادہ

امن و اماں کے ہم ہیں پیامی، صلح میں کوشاں تم سے زیادہ
جب ہوں مگر باطل کے مقابل، حشر بداماں تم سے زیادہ
کیا دوسرے شعر کا مصداق بھی شہ شاہاں ہیں ؟

جام غبوقی یعنی رات کو پیا جانے والا جام ؟
 

ام اویس

محفلین
اپنے صنم کے قرب و رضا کا رہتا ہے خواہاں تم سے زیادہ
شیخِ مکرم! ہے یہ برہمن صاحبِ ایماں تم سے زیادہ
میرے خیال میں پھر دوسرے شعر کو اس کے بعد کہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ ابہام دور ہوجائے ۔
(یہ غزل پڑھ کر آنے والا خیال ہے )
 
میرے خیال میں پھر دوسرے شعر کو اس کے بعد کہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ ابہام دور ہوجائے ۔
(یہ غزل پڑھ کر آنے والا خیال ہے )
غزل میں تو ہر شعر عموماً الگ مفہوم کا ہوتا ہے۔
اور اگر ایک ہی بات چل رہی ہو تو قطعہ کی علامت لگائی جاتی ہے۔
 
Top