محمد تابش صدیقی
منتظم
مرے شعلہ بار نالے، مری شعلہ بار آہیں
نہ جلا کے راکھ کر دیں کہیں تیری خواب گاہیں
ترے ہر ستم کو سہہ کر ترا ہر ستم سراہیں
یہ نہ ہم سے ہو سکے گا تری دوستی نباہیں
سرِ شام ہی سے نالے، سرِ شام ہی سے آہیں
شبِ غم سے کس طرح ہم دمِ صبح تک نباہیں
دلِ بد نصیب ہی کو کوئی عارضہ ہے ورنہ
وہی سحر ان میں اب تک وہ آپ کی نگاہیں
ہو ہزار سعیِ پیہم، ہو ہزار جہدِ منزل
میں پہنچ سکوں گا کیسے اگر آپ ہی نہ چاہیں
جو روش روش چمن کی ابھی خار و خس سے پُر ہے
تو بہارِ آمدہ کو ابھی کس طرح سراہیں
یہ فضائے گلستاں تو ہمیں کچھ بھی خوش نہ آئی
کہیں چاک دامنِ گل کہیں بلبلوں کی آہیں
ترے بندگانِ عاجز کا کہیں نہ ہو ٹھکانہ
تری رحمت و کرم کی نہ ملیں اگر پناہیں
جسے حوصلہ نظرؔ ہو وہی میرے ساتھ آئے
مری منزلِ وفا کی تو بہت کٹھن ہیں راہیں
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
نہ جلا کے راکھ کر دیں کہیں تیری خواب گاہیں
ترے ہر ستم کو سہہ کر ترا ہر ستم سراہیں
یہ نہ ہم سے ہو سکے گا تری دوستی نباہیں
سرِ شام ہی سے نالے، سرِ شام ہی سے آہیں
شبِ غم سے کس طرح ہم دمِ صبح تک نباہیں
دلِ بد نصیب ہی کو کوئی عارضہ ہے ورنہ
وہی سحر ان میں اب تک وہ آپ کی نگاہیں
ہو ہزار سعیِ پیہم، ہو ہزار جہدِ منزل
میں پہنچ سکوں گا کیسے اگر آپ ہی نہ چاہیں
جو روش روش چمن کی ابھی خار و خس سے پُر ہے
تو بہارِ آمدہ کو ابھی کس طرح سراہیں
یہ فضائے گلستاں تو ہمیں کچھ بھی خوش نہ آئی
کہیں چاک دامنِ گل کہیں بلبلوں کی آہیں
ترے بندگانِ عاجز کا کہیں نہ ہو ٹھکانہ
تری رحمت و کرم کی نہ ملیں اگر پناہیں
جسے حوصلہ نظرؔ ہو وہی میرے ساتھ آئے
مری منزلِ وفا کی تو بہت کٹھن ہیں راہیں
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی