جو گزری ہے اس پر لکھی ہے
قلم بھی مرا کاغذی ہے
قیامت تو ہے بعد کی بحث
کسی کی ابھی جاں گئی ہے
مرے تھے مگر جی اٹھے ہیں
پسِ مرگ بھی زندگی ہے
نئے حادثے کا ہے آغاز
ازل کل بھی تھا آج بھی ہے
یہاں بھی ہے اک حشر برپا
وہاں بھی عدالت لگی ہے
کبھی کُل ہے جُز کے برابر
کبھی ایک پَل بھی صدی ہے...