اعجاز بھائی ، میرے خیال میں گوگل ڈرائیو سے بہتر آرکائیو ڈاٹ آرگ رہے گا کہ یہ ایک مستقل اور دیرپا صورت ہے کتابیں محفوظ کرنے کی۔ سعود بھائی اس سلسلے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں ۔
شاباش ہے ، عبداللہ! بالکل صحیح !
ہمیشہ صرف مہینے کا نام بتاؤ ، سن کبھی بھی نہیں بتاؤ ۔ بعد میں تاریخ گھمانے میں آسانی رہتی ہے۔
عبداللہ بہت زبردست اور شاندار آدمی ہے۔ اللہ اس کو خوش رکھے۔ بڑا آدمی ہے۔🌞🌾🍁🌼
مطلع میں دید کی تجنیس درست کرلیں ۔ جیسا خورشید احمد نے کہا کہ دید مؤنث ہے ۔
"دید تیری کی" اچھی اردو نہیں ہے ۔ اور یہ شعر کی زبان تو بالکل بھی نہیں ہے۔
اس سے بہتر یہ ہوگا : ترے جلووں کی پیاس رہتی ہے ۔۔ یا ۔۔۔ ترے جلوے کی پیاس رہتی ہے
دیکھنا کیا ہے کہاں صرفِ نظر کرنا ہے
معرکہ یہ بھی مری آنکھ کو سر کرنا ہے
ہنس کے سہتا ہوں میں موسم کی ادائیں ساری
مجھے کچھ ننھے سے پودوں کو شجر کرنا ہے
ان کے شانوں پہ روایت کی ردائیں ڈالو
اک نئے عہد میں بچوں کو سفر کرنا ہے
مانتا ہوں کہ دل و جاں پہ گزرتے ہیں ستم
کام مشکل ہے محبت کا مگر کرنا ہے...
عمر بھر میں نے محبت کی کمائی کے سوا
نہ کیا کچھ بھی ترے در کی گدائی کے سوا
جب کبھی دیدۂ احساس نے دیکھا ہے کہیں
کچھ نہیں پایا تری جلوہ نمائی کے سوا
اور کیا کرتا میں رقاصۂ ہستی تجھے نذر
پاس کچھ تھا ہی نہیں نغمہ سرائی کے سوا
چاہے جس طور چلے دشتِ تمنا میں کوئی
حاصلِ کار نہیں آبلہ پائی کے سوا
اپنے...
اختلافاتِ نظر کو بھی گوارا نہ کریں
غلطی ایسی تو ہم لوگ خدارا نہ کریں
بیٹھنا بزمِ عدو میں کبھی پڑ جائے اگر
سرِ پندار سے دستار اتارا نہ کریں
سیکھ سکتے نہیں لڑنا وہ کبھی موجوں سے
تیرنے والے جو کشتی سے کنارہ نہ کریں
ظرف چھن جائے نہ آنکھوں سے دروں بینی کا
ذوقِ بینائی کو مصروفِ نظارہ نہ کریں
بعض...
دامنِ غیر سے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
آگ بڑھ جائے تو اپنوں کو صدا دیتے ہیں
وہ تو پھر حسنِ مجسم ہے اُسے کیا کہیے
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں
یوں بھی ہوتا ہے سمجھ ہی نہ سکیں ہم جس کو
اُس پر الزام بدلنے کا لگا دیتے ہیں
رات بھر خون جلاتے ہیں اُسے خط لکھ کر
صبح ہوتی ہے تو کاغذ بھی جلا دیتے...
آشنا نظروں سے کٹ کر اجنبی چہروں میں رہنا
مجھ کو راس آنے لگا ہے ہجر کے شہروں میں رہنا
گھٹتی بڑھتی چاہتوں کے بے اماں لمحوں سے بہتر
کاروباری نسبتوں کے بے خطر پہروں میں رہنا
مسئلوں کی ریت کے تپتے ہوئے ٹیلوں سے پیچھے
ٹھنڈے میٹھے آبِ گم کی بے کراں لہروں میں رہنا
آزمودہ دیرپا آبِ شفا سے کر کے پرہیز...
جلا ہے دل تو گمان و یقیں بھی جلنے لگے
مکاں جلا تو جلا سب مکیں بھی جلنے لگے
ہوائے شہرِ ضرورت کی بے نیازی سے
گھروں کی آگ میں ہم رہ نشیں بھی جلنے لگے
غرورِ عشق سلامت رکھے خدا میرا
تری وفا سے مرے نکتہ چیں بھی جلنے لگے
تمہاری بزم درخشاں رہے ، ہمارا کیا!
چراغِ راہ گزر ہیں ، کہیں بھی جلنے لگے
یہ...
کیا کہوں دل کی زمینوں پہ جو عالم گزرے
مٹ گئے نام درختوں سے وہ موسم گزرے
حوصلے اپنی جگہ ، کارِ وفا میں لیکن
جو گزرنی ہے مرے دوست وہ باہم گزرے
دھڑکنوں سے نہ ہوا کوئی کبھی ہم آہنگ
دل کو چُھوتے ہوئے یوں تو کئی سرگم گزرے
بجھتا دیا جو صبح کے آثار میں سے تھا
جب بجھ گیا تو ورثۂ بیکار میں سے تھا
آساں ہوئی ہیں منزلیں ، اچھا ہوا لٹا
رختِ سفر کہ جان کے آزار میں سے تھا
خنجر مرا تھا ہاتھ میں اُس کے ، سپر مری
نکلا مگر وہ لشکرِ اغیار میں سے تھا
ہم سے تو اس طرف کا ارادہ نہ ہو سکا
رستہ جدھر کا حرص کے بازار میں سے تھا...
دل میں آ کر مرے ارمان بدلتا جائے
گھر کی ترتیب وہ مہمان بدلتا جائے
اجنبی ہوں کہ شناسا مجھے معلوم نہیں
مجھ سے رشتہ کوئی ہر آن بدلتا جائے
میں تو اب تک ہوں اُسی عہدِ وفا پر قائم
رنگ ہر پل ترا پیمان بدلتا جائے
یادِ ماضی ، غمِ امروز کہ فکرِ فردا
اک فسانہ ہے جو عنوان بدلتا جائے
غمِ جاناں ، غمِ...
خوشبو ترے خیال کی لفظوں میں گھُل گئی
پھر جو غزل ہوئی تو گلابوں میں تُل گئی
ساحل کی نم ہوا نے ترا پیرہن چھُوا
نیلے فلک پہ رنگوں کی چھتری سی کھُل گئی
سر سے بلند موج تھی ساگر کے بیچ میں
پہنچی جو ساحلوں پہ تو پیروں میں رُل گئی
اپنے پرائے غم سبھی مل جل کے رولیے
اچھا ہوا فضا ذرا بارش میں دُھل گئی...
رسمِ جنوں جو رہروئے منزل سے اٹھ گئی
لیلیٰ بھی انتظار کے محمل سے اٹھ گئی
لوگوں نے کیا کیا یہ محبت کے نام پر
تکریمِ حرفِ عشق ہی محفل سے اٹھ گئی
تھا ہم نشین کون ہمارا تمہارے بعد
اک شمع تھی سو وہ بھی مقابل سے اٹھ گئی
بروقت تیغِ فیصل اٹھانے کی بات تھی
ہم سے نہ اٹھ سکی جو وہ قاتل سے اٹھ گئی
(۲۰۰۱)
منزل کو جانتا تھا ، اشارہ شناس تھا
ٹھہرا نہ وہ کہیں جو نظارا شناس تھا
انجام لکھ گیا مرا آغازِ عشق سے
اک شخص کس بلا کا ستارہ شناس تھا
ساگر کی سرکشی سے میں لڑتا تھا جن دنوں
واقف ہوا سے تھا ، نہ کنارہ شناس تھا
ہوتا نہ بے وفا تو گزرتی بہت ہی خوب
میں خوگرِ زیاں ، وہ خسارہ شناس تھا
آزارِ مصلحت میں...
کتابِ عشق اٹھا کر میں تو رویا ایسا
مٹا کے رکھ دیا ہر نقش بھگویا ایسا
جگا سکی نہ کسی چاپ کی آہٹ مجھ کو
بچھڑ کے تم سے کئی سال میں سویا ایسا
رہی نہ باقی جگہ رنجش و نفرت کیلئے
کسی نے پیار مرے دل میں سمویا ایسا
پڑا ہوا ہے مرے پاؤں میں بن کر زنجیر
کسی کے اشکوں نے اک ہار پرویا ایسا
مجھے تو ہوگئی...
شکستِ عشق پر آہ و فغاں بھی ٹھیک نہیں
رہی نہ آگ تو پھر یہ دھواں بھی ٹھیک نہیں
بسائے پھرتے ہو سینے میں بے دلی کیسی
شکستہ دل پہ یہ بارِ گراں بھی ٹھیک نہیں
ہے عکس آنکھ میں اُس کا تو اشک پھر کیسے
خوشی کے گھر میں یہ غم کا سماں بھی ٹھیک نہیں
بدل گیا کوئی رستہ اگر تو کیا رونا
ذرا سی بات پہ جی کا زیاں...
اپنے پندار کا در توڑ دیا میں نے بھی
بے لباس اپنا بدن دیکھ لیا میں نے بھی
بیٹھ کر سوزنِ تدبیر سے اوروں کی طرح
اپنا پیراہنِ صد چاک سیا میں نے بھی
بے حسی کا کوئی مشروب تھا سب ہاتھوں میں
زہر سمجھو کہ دوا پی ہی لیا میں نے بھی
کر تے جاتے تھے سبھی کشتِ تمنا سیراب
اپنی خواہش کو لہو دے ہی دیا میں نے...