غزل
(سبھاش پاٹھک ضیا)
تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا
ہے شرط اتنی حساب رکھنا
زبان کا کچھ خیال رکھ کر
بیان کو کامیاب رکھنا
قریب آؤ کہ چاہتا ہوں
ہتھیلی پر ماہتاب رکھنا
اگر تمازت کو سہ سکو تم
تو حسرتِ آفتاب رکھنا
جو کہنی ہو بات خار جیسی
تو لہجہ اپنا گلاب رکھنا
ضیا کسی سے سوال پوچھو
تو ذہن میں تم جواب...
غزل
(سبطِ علی صبا - 1935-1980)
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں
سوچتا ہوں...
غزل
(سبطِ علی صبا - 1935-1980)
گاؤں گاؤں خاموشی سرد سب الاؤ ہیں
رہرو رہ ہستی کتنے اب پڑاؤ ہیں
رات کی عدالت میں جانے فیصلہ کیا ہو
پھول پھول چہروں پہ ناخنوں کے گھاؤ ہیں
اپنے لاڈلوں سے بھی جھوٹ بولتے رہنا
زندگی کی راہوں میں ہر قدم پہ داؤ ہیں
روشنی کے سوداگر ہر گلی میں آپہنچے
زندگی کی کرنوں کے...
غزل
(امیتا پرسو رام میتا)
ہزاروں منزلیں پھر بھی مری منزل ہے تو ہی تو
محبت کے سفر کا آخری حاصل ہے تو ہی تو
بلا سے کتنے ہی طوفاں اُٹھے بحرِ محبت میں
ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے مرا ساحل ہے تو ہی تو
مجھے معلوم ہے انجام کیا ہوگا محبت کا
مسیحا تو ہی تو ہے اور مرا قاتل ہے تو ہی تو
کیا افشا محبت کو مری...
غزل
(مادھو رام جوہر - 1810-1888 )
فریاد کرے کس سے گنہ گار تمہارا
اللہ بھی حاکم بھی طرف دار تمہارا
کعبہ کی تو کیا اصل ہے اس کوچے سے آگے
جنت ہو تو جائے نہ گنہ گار تمہارا
دردِ دل عاشق کی دوا کون کرے گا
سنتے ہیں مسیحا بھی ہے بیمار تمہارا
جوہر تمہیں نفرت ہے بہت بادہ کشی سے
برسات میں دیکھیں گے ہم...
غزل
(راسخ عظیم آبادی - 1757-1823 پٹنہ بہار ہندوستان)
غفلت میں کٹی عمر نہ ہشیار ہوئے ہم
سوتے ہی رہے آہ نہ بیدار ہوئے ہم
یہ بےخبری دیکھ کہ جب ہم سفر اپنے
کوسوں گئے تب آہ خبردار ہوئے ہم
صیاد ہی سے پوچھو کہ ہم کو نہیں معلوم
کیا جانئے کس طرح گرفتار ہوئے ہم
تھی چشم کہ تو رحم کرے گا کبھو سو ہائے
غصہ...
غزل
(احمد مشتاق)
اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں
کون رہتا تھا کہاں یاد نہیں
جلوہء حسن ازل تھے وہ دیار
جن کے اب نام و نشاں یاد نہیں
کوئی اجلا سا بھلا سے گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
یاد ہے زینہء پیچاں اس کا
در و دیوار مکاں یاد نہیں
یاد ہے زمزمہء ساز بہار
شور آواز خزاں یاد نہیں
غزل
(بسمل سعیدی - 1901-1977 دہلی ہندوستان)
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے
طوفان کے بعد کا سکوں ہے
احساس کو ضد ہے دردِ دل سے
کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے
راس آئی ہے عشق کو زبونی
جس حال میں دیکھیے زبوں ہے
باقی نہ جگر رہا نہ اب دل
اشکوں میں ہنوز رنگِ خوں ہے
اظہار ہے دردِ دل کا بسمل
الہام نہ شاعری فسوں ہے
غزل
عرفان صدیقی، لکھنؤ - 1939 - 2004
حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا
جب حشر اسی زمیں پہ اُٹھائے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا
وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام
دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا
داماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں...