نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    درد آئے گا دبے پاؤں۔۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں ہجر کا دشت کہیں،...
  2. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    دریچہ گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال لہو میں‌ غرق مرے...
  3. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر آتی ہے یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں تم لاکھ رضا کی خُو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے...
  4. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکرِ سود و زیاں تو چھوٹے گی منتِ‌این و آں تو چھوٹے گی خیر، دوزخ میں مے ملے نہ ملے شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  5. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے (ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی) تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم نیم تاریک راہوں میں مارے گئے سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے تیرے ہونٹوں‌کی لالی لپکتی رہی تیری زلفوں کی...
  6. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے جو ہم پہ گزری...
  7. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    اے روشنیوں‌کے شہر سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر دیواروں‌کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر اے روشنیوں کے شہر کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ ہر جانب بے نور کھڑی...
  8. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے لبمی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے دستِ فلک...
  9. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں دل والو کوچہء جاناں میں‌کیا ایسے بھی حالات نہیں جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی...
  10. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی سروہی ہے تو آستاں ہے وہی جاں وہی ہے تو جانِ جاں‌ہے وہی اب جہاں مہرباں نہیں کوئی کوچہء یارِ مہرباں ہے وہی برق سو بار گر کے خاک ہوئی رونقِ خاکِ آشیاں ہے وہی آج کی شب وصال کی شب ہے دل سے ہر روز داستاں ہے وہی چاند تارے...
  11. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    واسوخت سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی! ہاں، ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے کیوں دادِ غم، ہمیں نے طلب کی، برا کیا ہم سے جہاں میں...
  12. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل بات بس سے نکل چلی ہے دل کی حالت سنبھل چلی ہے اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے اب طبیعت بہل چلی ہے اشک خونناب ہو چلے ہیں غم کی رنگت بدل چلی ہے یا یونہی، بجھ رہی ہیں شمعیں یا شبِ ہجر ٹل چلی ہے لاکھ پیغام ہو گئے ہیں جب صبا ایک پل چلی ہے جاو اب سو رہو ستارو درد کی رات ڈھل چلی ہے...
  13. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  14. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    ملاقات یہ رات اُس درد کا شجر ہے جو مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں میں لاکھ مشعل بکف ستاروں کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں ہزار مہتاب، اس کے سائے میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں یہ رات اُس درد کا شجر ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے مگر اسی رات کے شجر سے یہ چند لمحوں کے زرد پتے...
  15. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے نہیں شکایتِ ہجراں کہ اس وسیلے سے ہم اُن سے رشتہء دل استوار کرتے رہے وہ دن کہ کوئی بھی جب وجہِ انتظار نہ تھی ہم اُن میں تیرا سوا انتظار کرتے رہے ہم اپنے راز...
  16. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے صاف ہم...
  17. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تری انجمن سے پہلے سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے...
  18. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    اے حبیبِ عنبر دست! کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں کیا ہے آج عجب دل نواز بندوبست مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت ہوا ہے گرمیء خوشبو سے اس طرح سرمست ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا کہیں قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست لیے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست...
  19. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل...
  20. وہاب اعجاز خان

    زندان نامہ

    غزل شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہُوے تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی تھے شبِ ہجر، کام اور بہت ہم نے فکرِ دلِ تباہ نہ کی کون قاتل بچا ہے شہر میں فیض جس سے یاروں نے رسم وراہ نہ...
Top