111
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
رُو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا
قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بے چارہ گریہ ناک، گریباں دریدہ تھا
اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں
جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا
جس صید گاہِ عشق میں یاروں کا جی گیا
مرگ اس شکار گہ کا شکارِ...