نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    110 جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا تپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید سرشکِ یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    109 کل چمن میں گُل و سمن دیکھا آج دیکھا تو باغ بَن دیکھا کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں عاشقوں کا جلا وطن دیکھا ذوقِ پیکانِ تیر میں تیرے مدتوں تک جگر نے چَھن دیکھا ایک چشمک دو صد سنانِ مژہ اُس نکیلے کا بانکپن دیکھا حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ میر کا کھول کر کفن دیکھا
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    108 ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا ہر چند شورِ محشر اب بھی ہے در پہ لیکن نکلے گا یار گھر سے، ہووے گا جب تماشا طالع جو میر خواری محبوب کو خوش آئی پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    107 سارے رئیس اعضاء ہیں معرضِ تلف میں یہ عشقِ بے محابا کس کو امان دے گا پائے پُر آبلہ سے مَیں گم شدہ گیا ہوں ہرخار بادیے کا میرا نشان دے گا نالہ ہمارا ہر شب گزرے ہے آسماں سے فریاد پر ہماری کس دن تُو کان دے گا
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    106 جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو، دیا آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا پوچھا جو میں نے دردِ محبت سے میر کو رکھ ہاتھ اُن نے دل پہ ٹک اک اپنے، رو دیا
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    کب مصیبت ذدہ دل، مائلِ آزار نہ تھا کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں تیرے کوچے میں مگر سایہء دیوار نہ تھا صد گلستاں تہِ یک بال تھے اُس کے جب تک طائرِ جاں قفسِ تن کا گرفتار...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    104 تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا بوسہ بھی لیں تو کیا ہے، ایماں ہے ہمارا گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرِ خوباں اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا...
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    103 دل جو زیرِ غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں کا مکدر تھا اُس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر تھا سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا بعد اک عمر جو ہوا معلوم دل اُس آئینہ رُو کا پتھر تھا بارے...
  9. وہاب اعجاز خان

    شاعری ، اپنی پسند کی ،

    عباس تابش کی غزل کے دو اشعار ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    102 وہ آئنہ رخسار دمِ باز پس آیا جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر سوبار نکالا اسے اوراس کو چھپایا میں صیدِ رمیدہ ہوں بیابانِ جنوں کا رہتا ہے مرا موجبِ وحشت، مرا سایا یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    101 دامانِ کوہ میں جو میں دھاڑ مار رویا اک ابرواں سے اُٹھ کر بے اختیار رویا پڑتا نہ تھا بھروسا عہد وفائے گل پر مرغِ چمن نہ سمجھا، میں تو ہزار رویا ہرگل زمیں یہاں کی رونے ہی کی جگہ تھی مانندِ‌ ابر ہر جا میں زار زار رویا تھی مصلحت کہ رک کر ہجراں میں جان دیجے دل کھول کر نہ غم میں مَیں...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    100 آیا جو واقعے میں درپیش عالمِ مرگ یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر گل کا وہ روئے خنداں چشمِ پُر آب نکلا کچھ دیر ہی لگی نا دل کو تو تیر لگتے اک صیدِ ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا ہر حرفِ غم نے میرے مجلس کے تئیں رلایا گویا غبارِ دل کا پڑھتا کتاب...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    99 چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا دہر میں مَیں خاک بسر ہی رہا عمر کو اس طور بسر کرگیا دل نہیں منزلِ سینہ میں اب یاں سے وہ بے چارہ سفر کرگیا کس کو میرے حال سے تھی آگہی نالہء شب سب کو خبر کرگیا مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں میر بھی شام اپنی سحر کرگیا
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    98 غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا دل نہ پہنچا گوشہء داماں تلک قطرہء خوں تھا، مژہ پر جم رہا سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا جامہء احرامِ زاہد پر نہ جا تھا حرم میں، لیک...
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    دیر و حرم سے گزرے، اب دل ہے گھر ہمارا ہے ختم اس آبلے پر ، سیر و سفر ہمارا پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کیسے کیا جانیے کہ اُس بِن دل ہے کدھر ہمارا ہیں تیرے آئنے کی تمثال ہم ، نہ پوچھو اس دشت میں نہیں ہے پیدا...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    96 دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا لے یار مرے سلمہ، اللہ تعالا کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا معمور شرابوں سے ، کبابوں سے ہے سب دَیر مسجد میں ہے کیا شیخ، پیالا نہ نوالا گزرے ہے لہو واں سرِ ہر خار سے اب تک جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاوں کا...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    95 کب تلک یہ ستم اُٹھایئے گا ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا شکلِ تصویر بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی آئیے گا سب سے مل چل، کہ حادثے سے پھر کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا کہیے گا اُس سے قصہء مجنوں یعنی پردے میں غم سنائیے گا (ق) شرکتِ شیخ و برہمن سے میر کعبہ و دَیر سے بھی جایئے...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    94 نَے دل رہا بجا ہے، نہ صبر و حواس و ہوش آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا منھ کی جھلک دے یار کے بے ہوش ہوگئے شب ہم کو میر پرتوِ مہتاب لے گیا
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    93 پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا نالہ مرا چمن کی دیوارتک نہ پہنچا اس‌ آئنے کے مانند زنگار جس کو کھاوے کام اپنا اُس کے غم میں‌دیدار تک نہ پہنچا جوں نقش پا ہے غربت حیرانِ کار اس کی آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا لبریزِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    92 کل شبِ ہجراں تھی، لب پر نالہ بیمارانہ تھا شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا شہرہء عالم اُسے یمنِ محبت نے کیا ورنہ مجنوں ایک خاک افتادہء ویرانہ تھا منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں اے ہم نشیں اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا اک نگاہِ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں وا ہوئیں...
Top