نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    150 جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت رونا آتا ہے مجھے ہرسحَر و شام بہت دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    149 جیتا ہی نہیں، ہو جسے آزارِ محبت مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت ہر جنس کی خواہاں ملے بازار جہاں میں لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت اس راز کو رکھ جی ہی میں تاجی بچے تیرا زنہار جو کرتا ہو تُو اظہار محبت بے کار نہ رہ عشق میں تُو رونے سے ہرگز یہ گریہ ہی ہے آبِ رُخِ کارِ محبت
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    148 آنکھوں پہ تھے پارہء جگر رات ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات اک دن وفا بھی کرتے وعدہ گزری ہے اُمیدوار ہر رات مکھڑے سے اُٹھائیں اُن نے زلفیں جانا بھی نہ ہم ، گئی کدھر رات تُو پاس نہیں‌ ہوا تو روتے رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں رو اُٹھتے تھے بیٹھ دوپہر...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    147 سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو، جاناں سمیت تِیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ ناداں سمیت باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو ہم بھی واں آئے اگر مژگانِ خوں افشاں سمیت قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے سب کو مارا...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    146 سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو، جاناں سمیت تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ نالاں سمیت باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو ہم بھی واں آئے اگر مژگانِ خوں فشاں سمیت قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے سب کو مارا...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    145 ت روزانہ ملوں یار سے، یا شب ہو ملاقات کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات نے بخت کی یاری ہے، نہ کچھ جذب ہے کامل وہ آ بھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک اک بار تو اس شوخ سے یارب! ہو ملاقات جاتی ہے غشی بھی کبھو، آتے ہیں بہ خود بھی کچھ لطف...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    144 دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب! عرقِ شرم میں گیا ہے ڈوب آئی کنعاں سے بادِ مصر، ولے نہ گئی تابہ کلبہء یعقوب اس لیے عشق میں نے چھوڑا تھا تو بھی کہنے لگا برا، کیا خوب پی ہو مے تو لہو پیا ہوں میں محتسب آنکھوں پر ہے کچھ آشوب میر شاعر بھی زور کوئی تھا دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    143 کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب موند رکھنا چشم کا ہستی میں عینِ دید ہے کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب تُو ہو اور دنیا ہو ساقی، میں ہوں، مستی ہو مدام پربطِ صہبا نکالے اُڑ چلے رنگِ شراب ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    142 شبِ سوزِ دل کہا تھا میں مجلس میں شمع سے روئی ہے یاں تلک کہ بھرا ہے لگن میں آب دریا میں قطرہ قطرہ ہے آبِ گہر کہیں ہے میر موج زن ترے ہر یک سخن میں آب ‌‌
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    141 یہ اتصال اشکِ جگر سوز کا کہاں روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب (ق) شکوہ عبث ہے میر کہ کڑھتے ہیں سارے دن یاں دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب گزرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز کس کی کٹی زمانے میں بے غم تمام شب
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    140 اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے رہتا تھا پاس وہ درِ نایاب روز و شب قدرت تو دیکھ عشق کی ، مجھ سے ضعیف کو رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب اب رسمِ ربط اُٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں بیٹھے ہی...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    139 (ب) رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں گزرے ہے میر اُن کو...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    138 آہ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا سمجھی نہ بادِ صبح کہ آکر اُٹھا دیا اُس فتنہء زمانہ کو ناحق جگا دیا پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا سو آج بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اُٹھا دیا اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نہ آہ پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا تھی...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    137 یار عجب طرح نگہ کر گیا دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا تنگ قبائی کا سماں یار کی پیرہنِ غنچہ کو تہ کر گیا جانا ہے اِس بزم سے آیا تو کیا کوئی گھڑی گو کہ تُو رہ کر گیا وصفِ خط و خال میں خوباں کے میر نامہء اعمال سیہ کر گیا
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    136 سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا سب گئے ہوش و صبر و تاب تواں دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا ظلم و جور و جفا، ستم، بیداد عشق میں تیرے ہم پہ کیا نہ ہوا ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے یاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا میر افسوس وہ کہ جو کوئی اس کے دروازے کا گدا نہ ہوا
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    135 کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے قتل کرتے کرتے تیرے تئیں جنوں ہو جائے گا بزمِ عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں جوں حبابِ بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    134 کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سُلا رکھا جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے گل پھول کو ہے اُن نے پردہ سا بنا رکھا جوں برگِ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو دل جس کسو کا...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    133 گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا جگر پر زخم ہے اُس کی زباں درازی کا خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا چلو ہو راہِ موافق کہے مخالف کے طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    132 آہ کے تئیں دلِ حیران و خفا کو سونپا میں نے یہ غنچہء تصویر صبا کو سونپا تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی تھا وہ بے درد مجھے جن نے وفا کو سونپا اب تو جاتا ہی ہے کعبے کو تُو بُت خانے سے جلد پھر پہنچیو اے میر! خدا کو سونپا
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    131 ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا پر اتنا بھی ظالم نہ رُسوا ہوا تھا خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہواتھا کہاں تھا تُو اس طور آنے سے میرے گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا زہے طالع اے میر اُن نے یہ پوچھا کہاں تھا تو اب تک ، تجھے کیا ہوا تھا
Top